منٹو، کرکٹ اور حنیف محمد


سعادت حسن منٹو کا ذکر کرکٹ کی کتاب میں پڑھ کر تھوڑی حیرت ہوئی اور وہ بھی اس کتاب میں، جسے معروف کرکٹ ویب سائٹ کرک انفو نے اپنے ایک سروے میں کرکٹ پر لکھی گئیں، بہترین کتابوں میں دوسرا نمبر دیا تھا ۔یہ بھارتی تاریخ دان رام چندر گوہا کی کتاب ’’A Corner of a Foreign Field ‘‘ ہے جس میں نہایت عمدگی سے برصغیر میں کرکٹ کے ارتقاء اور ترقی کا قصہ بیان ہوا ہے۔ اس قابل قدر کتاب میں منٹو کا ذکر اس مناسبت سے آیا ہے کہ منٹو نے مرنے سے ایک دن قبل دوستوں کی بزم میں یہ ارادہ ظاہر کیا تھا کہ وہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان لاہور میں ہونے والے ٹیسٹ میں حنیف محمد کی بیٹنگ دیکھنے جائیں گے۔ افسوس! منٹو کی یہ خواہش ناتمام رہی اوردونوں ٹیموں کے درمیان جاری بہاولپور ٹیسٹ کے آخری روز یعنی 18 جنوری 1955ء کو ان کی سناؤنی آ گئی جبکہ لاہور ٹیسٹ 29 جنوری کوشروع ہونا تھا ۔رام چندر گوہا نے منٹو سے متعلق جو ذکر کیا ہے، اس کا حوالہ حامد جلال کے منٹو پر مضمون کے انگریزی ترجمے کو بنایا ہے۔ ہم نے یہ پڑھا تو مناسب جانا کہ یہ ماخذ اصل زبان اردو میں جوں کا توں نقل کردیں ۔ حامد جلال ’’منٹو ماموں کی موت‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’بہاول پور میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کرکٹ کا دوسرا ٹیسٹ میچ ہورہا تھا اور ڈرنگ اسٹیڈیم میں بیٹھا طالع یار خاں کو میچ کا چشم دید حال نشر کرنے میں مدد دے رہا تھا کہ لاہورسے میرے نام ایک ٹرنک کال آئی اور مجھے بتایا گیا کہ آج صبح سعادت حسن منٹوکا انتقال ہو گیا۔ میں فوراً غم سے بے قابو نہیں ہوگیا بلکہ مجھ میں شدید بر افروختگی پیدا ہو گئی۔ مجھے منٹو ماموں پر انتہائی شدید غصہ آرہا تھا کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ یہ سلوک کس طرح کر سکتے ہیں؟ لیکن میں نے اس کا اظہار نہیں کیا اور جب میں بولا تو میری آواز سے غیرمعمولی تشویش نمایاں تھی۔ میں نے پوچھا ’’کہاں انتقال ہوا؟‘‘جواب ملا ’’گھر پر‘‘ اس جواب سے مجھے بڑا اطمینان ہوا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں وہ اچانک گھر سے باہر کسی اور مقام پر موت سے ہم آغوش نہ ہوگئے ہوں۔ عین ممکن تھا کسی تانگے پر، کسی ریستوران میں، کسی پبلشر کے دفتر میں بیٹھے بیٹھے یا کسی فلم اسٹوڈیو میں انھیں اچانک موت آ گئی ہو۔ جب میں اپنی جگہ پر واپس پہنچ گیا تو میچ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے والے ساتھیوں نے اشاروں سے پوچھا کہ کیا بات تھی۔ میں نے ایک کاغذ پر یہ جملہ لکھ دیا۔ ’’امپائر نے سعادت حسن منٹو کو آخر آؤٹ دے ہی دیا۔ آج صبح ان کا انتقال ہو گیا۔

منٹو ماموں کو آؤٹ دینے کے لیے امپائر سے کئی بار اپیلیں کی جا چکی تھیں لیکن ہر بار اپیل مسترد کردی گئی تھی۔اب ان کی بے صبر اور ڈانواں ڈول اننگز ختم ہو گئی تھی۔ وہ کرکٹ کے کھلاڑی ہوتے تو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ کبھی حنیف محمد کی طرح ہوشیار اور محتاط کھلاڑی نہیں بن سکتے تھے، جسے وہ لاہور کے تیسرے ٹیسٹ میچ میں کھیلتے ہوئے دیکھنے کے بے حد مشتاق تھے۔اس کا علم مجھے ان کی موت سے چوبیس گھنٹے بعد گھر پہنچ کر ہوا۔ درحقیقت ان کی زندگی کی آخری دو خواہشوں میں سے ایک خواہش یہ بھی تھی۔ اپنی موت سے ایک دن پہلے انھوں نے ایک ریستوران میں اپنے دوستوں سے کہا تھا ’’حامد جلال کو واپس آ جانے دو۔ میں اسی کے ساتھ ٹیسٹ میچ میں حنیف کا کھیل دیکھنے جاؤ ں گا۔‘‘

منٹو کو جس ٹیسٹ میچ کا بیتابی سے انتظار تھا، اس کے بارے میں لوگوں کے جوش وخروش کی خبریں جیل میں فیض احمد فیض کو بھی پہنچ رہی تھیں ۔ اپنی اہلیہ کے نام خط میں فیض نے لکھا:

’’ غالباً لاہور شہر آج کل کرکٹ کے بخار میں مبتلا ہوگا(بھارتی کرکٹ ٹیم پہلی بار پاکستان کا دورہ کررہی تھی) یہ Displacement کی بہت اچھی مثال ہے۔ اس سے مراد ہے دبی ہوئی اور ناآسودہ خواہشات کی تسکین کے لیے کسی بالکل مختلف دائرہ عمل میں سرگرم ہونا جس کا ان خواہشات سے کوئی علاقہ نہ ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی قومی مسئلہ ایسا نہیں جسے کسی غریب کلرک نے وہ اہمیت دی ہو جو آج کل کرکٹ کو حاصل ہے۔ گویا اس نے کرکٹ کے میدان کو زندگی کے میدان کا بدل بنا لیا ہے۔ اس لیے کہ زندگی کے محنت طلب میدان میں اس کے لیے کیف و ولولے کا کوئی سامان موجود نہیں لیکن کرکٹ میچ کے ہر سنسنی خیز مرحلے میں وہ کلرک برابر کا شریک ہوسکتا ہے۔ خیر اگر بیچارے کو اسی میں مزہ ملتا ہے تو ہم حرف گیری کیوں کریں لیکن مجھے یہ رویہ کچھ غیر صحت مند اور قابل افسوس نظر آتا ہے۔ شاید بڑھاپے کا اثر ہے۔‘‘

منٹو نے ایک کرکٹر کے نام سے مدد لے کر’’ہپ ٹلا‘‘کی اصطلاح بھی گھڑی، جس کا پس منظر جاننے کے لیے منٹوکے اپنے جگریدوست شیام پر لکھے خاکے کا یہ اقتباس پڑھنا لازم ہے۔ ’’ایک روز صبح گھر سے بمبئی ٹاکیز آتے ہوئے، میں نے ٹرین میں اخبارکا اسپورٹس کالم کھولا۔ برے برن اسٹیڈیم میں کرکٹ میچ ہو رہے تھے۔ ایک کھلاڑی کا نام کچھ عجیب وغریب تھا۔’’ہپ ٹلا‘‘۔۔۔ ایچ، ای، پی، ٹی، یو، ایل، ایل ، ایچ ،اے۔۔۔ ہپ ٹلا۔۔۔ میں نے بہت سوچاکہ آخر یہ کیا ہوسکتا ہے مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ شاید یہ ہیبت اللہ کی بگڑی ہوئی شکل تھی۔

اسٹوڈیو پہنچا تو کمال (امروہی )کی کہانی کی فلمی تشکیل کا کام شروع ہوا۔ کمال نے اپنے مخصوص ادبیانہ اور اثر پیدا کرنے والے انداز میں کہانی کا ایک باب سنایا۔ مجھ سے اشوک نے رائے طلب کی’’کیوں منٹو؟‘‘

معلوم نہیں کیوں میرے منہ سے نکلا۔’’ ٹھیک ہے۔ مگر ہپ ٹلا نہیں!‘‘ بات کچھ بن ہی گئی۔’’ہپ ٹلا‘‘ میرا مطلب بیان کر گیا۔ میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ سیکونس زوردارنہیں ہے۔ کچھ عرصے کے بعد حسرت (لکھنوی) نے اسی باب کوایک نئے طریقے سے پیش کیا۔ میری رائے پوچھی گئی تو میں نے اب کی دفعہ ارادی طور پر کہا۔ بھئی حسرت بات نہیں بنی۔۔۔ کوئی ہپ ٹلا چیز پیش کرو۔’’ ہپ ٹلا۔ ‘‘ دوسری مرتبہ، ہپ ٹلا کہہ کر میں نے سب کی طرف ردعمل معلوم کرنے کے لیے دیکھا۔ یہ لفظ اب معنی اختیارکرچکا تھا۔ چنانچہ اس نشست میں بلا تکلف میں نے اسے استعمال کیا۔ ہپ ٹیلٹی نہیں۔ ہپ ٹولائزکرنا چاہیے، وغیرہ وغیرہ، لیکن اچانک ایک بار اشوک مجھ سے مخاطب ہوا’’ہپ ٹلا کا اصل مطلب کیا ہے؟ کس زبان کا لفظ ہے!‘‘ شیام اس وقت موجود تھا، جب اشوک نے مجھ سے سوال کیا۔ اس نے زور کا قہقہہ لگایا۔ اس کی آنکھیں سکڑ گئیں۔ ٹرین میں وہ میرے ساتھ تھا۔جب میں نے کرکٹ کے کھلاڑی کے اس عجیب وغریب نام کی طرف اس کو متوجہ کیا تھا، ہنس ہنس کر دوہرا ہوتے ہوئے،اس نے سب کو بتایا کہ یہ منٹو کی نئی منٹویت ہے۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو ہپ ٹلا کو کھینچ کرفلمی دنیا میں لے آیا۔ مگر کھینچا تانی کے بغیر لفظ بمبے کے فلمی حلقوں میں رائج ہو گیا۔ 29 جولائی 1948ء کے خط میں شیام مجھے لکھتا ہے:

’’پیارے منٹو! اب کی دفعہ تم پھر خاموش ہو، تمھاری یہ خاموشی مجھے بہت دق کرتی ہے۔ اس کے باوجود کہ میں تمھارے دماغی تساہل سے بخوبی واقف ہوں۔میں غصے سے دیوانہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔جبکہ تم یکلخت چپ سادھ لیتے ہو۔اس میں شک نہیں کہ میں بھی کوئی بہت بڑا خط باز نہیں ہوں۔لیکن مجھے ایسے خط لکھنے اور وصول کرنے میں لطف حاصل ہوتا ہے، جو ذرا الگ قسم کے ہوں۔۔۔ یعنی ہپ ٹلا۔ لیکن ہپ ٹلا یہاں بہت ہی نایاب چیز ہوگئی ہے۔۔۔اسے کاغذ پر لکھو تو کم بخت ’’ہپ ٹلی‘‘بن جاتی ہے اور اگر یہ ہپ ٹلی بھی دستیاب نہ ہو تو بتاؤ کتنی کوفت ہوتی ہے۔معاف کرنا ، اگر میں نے ہپٹولائز کرنا شروع کردیا ہو۔۔۔ لیکن کیا کروں۔ جب حقیقتیں گم ہوجائیں تو انسان ہپٹولیٹ ہی کرتا ہے مگر مجھے کچھ پروا نہیں کہ تم کیا کہوگے کیا نہیں کہوگے۔میں اتنا جانتا ہوں اور تمھیں اس کا علم ہو گا کہ تم ایسے بڑے ہپ ٹلا کو اس میدان میں شکست دینے کا سہرا صرف میرے سر ہے۔ ‘‘

منٹو کی تحریر پڑھی تو خیال گزرا کہ گوگل پر ہپ ٹلا لکھ کر دیکھا جائے، تو شاید اس نام کے کرکٹر کے بارے میں کچھ جانکاری ہو سکے، ایسا کیا تو ایک ایسا مضمون سامنے آگیا، جس میں ہپ ٹلا کا اچھی طرح سراغ لگایا گیا تھا۔ 2012ء میں مضمون نگار ایوروک سین نے دہلی میں معروف داستان گو، محمود فاروقی اور دانش حسین کی زبانی منٹوکی کہانی سن کر اس پرکالم باندھا۔ منٹو کہانی میں ہپ ٹلا کا ذکر بھی تھا، اس لیے انھوں نے اس کے بارے میں پڑھنے والوں کو بتایا کہ ہپ ٹلا کا پورا نام صالح بھائی ہپ ٹلا تھا اور اس نے اپنے پہلے فرسٹ کلاس میچ میں گجرات کی نمائندگی کرتے ہوئے وجے ہزارے کو آؤٹ بھی کیا۔ یہ میچ ان کے خیال میں ،اس وقت کھیلا گیا، جب منٹو بمبئی میں نہیں تھے، اس لیے منٹو نے اس میچ کے بارے میں اخبار میں نہیں پڑھا ہو گا۔ ان کے خیال میں، ہپ ٹلا نے 1947/48 میں بمبئی فیسٹیول ٹورنامنٹ میں برے برن اسٹیڈیم میں، کے۔ سی۔ابراہیم الیون کی طرف سے جو دو میچ کھیلے ان میں سے کسی کا احوال پڑھتے ہوئے، منٹو کی نظر سے ہپ ٹلا کا نام گزرا ہو گا۔ ہپ ٹلا، بمبئی اور مسلمز کی ٹیم کی طرف سے بھی کھیلا۔ کرک انفو کے مطابق، ہپ ٹلا نے 1934ء سے 1948تک فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی۔ 1966ء میں بمبئی میں اس کا انتقال ہوا۔

اشوک کمار کے خاکے میں فسادات کی ہولناکی بیان کرنے کے لیے منٹو بیچ میں کرکٹ کو کھنیچ لاتے ہیں’’میں نے جب بمبئی ٹاکیز میں قدم رکھا تو ہندو مسلم فسادات شروع تھے ۔ جس طرح کرکٹ کے میچوں میں وکٹیں اڑتی ہیں ، باؤنڈریاں لگتی ہیں ، اسی طرح ان فسادوں میں لوگوں کے سر اڑتے ہیں اور بڑی بڑی آگیں لگتی تھیں۔‘‘

شیام پر منٹو کے خاکے میں یہ اقتباس بھی ملاحظہ کیجئے ’’مے نوشی کے معاملے میں بھی شیام اعتدال پسندنہیں تھا۔ وہ کھل کھیلنے کا قائل تھا۔ مگر اپنے سامنے میدان کی وسعت دیکھ لیتا تھا۔ اس کی لمبائی چوڑائی کو اچھی طرح جانچ لیتا تھا، تا کہ حدود سے آگے نہ نکل جائے، وہ مجھ سے کہا کرتا تھا۔’’ میں چوکے پسند کرتا ہوں۔چھکے محض اتفاق سے لگ جاتے ہیں۔‘‘

اور اب آخر میں عصمت چغتائی کے منٹو پرتحریرکردہ خاکے کا چھوٹا سا ٹکڑا : ’’ایک دن دفتر میں گرمی سے پریشان ہوکرمیں نے سوچا جا کر منٹو کے یہاں آرام کرلوں پھر واپس ملاد جاؤں۔ دروازہ حسب معمول کھلا ہوا تھا، جا کر دیکھا تو صفیہ منہ پھلائے لیٹی ہے۔ منٹو ہاتھ میں جاڑو لیے سٹاسٹ پلنگ کے نیچے ہاتھ مار رہا ہے۔ اور ناک پر کْرتے کا دامن رکھے میز کے نیچے جھاڑو چلا رہا تھا۔

’’یہ کیا کررہے ہیں۔‘‘میں نے میزکے نیچے جھانک کر پوچھا۔

’’کرکٹ کھیل رہا ہوں۔‘‘منٹونے بڑی بڑی مورپنکھ جیسی پتلیاں گھما کر جواب دیا۔‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments