دہلی کی زہریلی ہوا اور یہ رکشہ کھینچنے والے


رکشہ چلانے والےتصویر کے کاپی رائٹANKIT PANDEY
Image captionرکشہ چلانے والے کے پس منظر میں تاریخی لال قلعے نظر آ رہا ہے

‘میری آنکھیں جلتی ہیں اور رکشہ کھینچتے ہوئے سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے۔ میرا جسم مجھے دہلی کی زہریلی ہوا سے دور بھاگنے کے لیے کہتا ہے لیکن مجھے اپنے بچوں کے لیے روزی کمانا ہے۔ میں بھاگ کر جاؤں تو جاؤں کہاں؟ اب یہ سڑکیں ہی ہمارا گھر ہیں۔’

سنجے کمار پانچ سال پہلے ریاست بہار سے کام کی تلاش میں دہلی آئے لیکن کامیابی نہیں ملی۔ انھوں نے اپنا پیٹ پالنے اور اپنے گھر والوں کو کچھ پیسے بھیجنے کے لیے سائیکل رکشہ چلانا شروع کر دیا۔

اس کے بعد کوئی گھر کرائے پر لینے کے لیے پیسے نہیں بچتے تھے لہٰذا وہ فٹ پاتھ پر ہی سونے لگے۔

انھوں نے کہا: ‘میں صرف ایک بستر چاہتا ہوں اور وہ بھی میسر نہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ یہ بھی ایک دور کا خواب ہے۔ میں دو وقت پیٹ بھر کھانا چاہتا ہوں، لیکن وہ بھی ملنا مشکل ہے۔ میں کم از کم صاف ہوا میں سانس لینے کی توقع کرتا ہوں، لیکن سردیوں کے موسم میں یہ بھی ناممکن ہو گیا ہے۔ آپ اپنے گھر جا سکتے ہیں، لیکن مجھے تو ہر وقت پر سڑک پر ہی رہنا ہوتا ہے۔’

فٹ پاتھتصویر کے کاپی رائٹANKIT PANDEY
Image captionکسی پل کے نیچے فٹ پاتھ پر ہی رکشہ چلانے والے سو جاتے ہیں

روز بروز خراب ہوتی ہوئی دلی کی ہوا

ہر سال نومبر اور دسمبر میں شہر کی ہوا بد سے بدتر ہو رہی ہے کیونکہ پڑوسی ریاستوں کے کسان اپنے کھیتوں کو صاف کرنے کے لیے فصلوں کی جڑوں کو جلاتے ہیں۔ اسی موسم میں ہندوؤں کا بڑا تہوار دیوالی آتا ہے جس میں بڑے پیمانے پر پٹاخوں اور آتش بازی سے ہوا مزید زہریلی ہو جاتی ہے۔

دہلی میں ہزاروں رکشہ چلانے والے ہیں جو چھوٹے فاصلے کے لیے یہاں کے لوگوں کو بہت مناسب لگتے ہیں۔ لیکن موسم سرما میں دہلی کے کچھ علاقوں میں آلودگی کی سطح محفوظ کی حد سے 30 گنا زیادہ ہو جاتی ہے تو رکشہ چلانے والے ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

رکشہ کھینچنے سے پھیپھڑوں پر اضافی دباؤ پڑتا ہے اور اس پر سے آلودگی کی سنگینی حالات کو مزید خراب کر دیتی ہے۔ چھوٹے اور زہریلے پی ایم 2.5 ذرات پھیپھڑوں میں گہرائی تک پہنچ جاتے ہیں۔

انڈین سپریم کورٹ نے حال ہی میں ان کی حالت زار کا نوٹس لیا ہے۔ اس کے متعلق عرضیوں کی سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ حکومت کی جانب سے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ گھروں میں رہنے کا مشورہ دینا اس کا حل نہیں ہے۔

عدالت نے کہا: ‘وہ بہت مشکل کام کر رہے ہیں۔ آپ ان سے یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ آپ اپنا کام روک دیجیے کیونکہ صبح کے وقت کام کرنا غیر محفوظ ہے۔ یہ بہت سنگین صورتحال ہے۔’

رکشہ چلانے والےتصویر کے کاپی رائٹANKIT PANDEY
Image captionسڑکیں ہی ان کا گھر ہیں

میں جتنے رکشتہ کھینچنے والوں سے ملا وہ یا تو کھانس رہے تھے یا انھیں سانس لینے میں تکلیف تھی۔ ان میں سے کچھ تو اپنی بات بھی پوری نہیں کر پا رہے تھے۔ ایک میٹرو سٹیشن پر دھواں اتنا زیادہ تھی کہ راکھ کا ذائقہ منہ میں آ رہا تھا اور کچھ میٹر آگے دیکھنا بھی ناممکن تھا۔

لیکن ایسی حالت میں بھی رکشہ کھینچنے والے سڑک پر دیکھے جا سکتے ہیں، جو دھویں میں رکشہ کھینچنے پر مجبور ہیں۔

مغربی بنگال سے سات سال قبل دہلی آنے والے جے چند جادھو کہتے ہیں کہ کام سے تھوڑے عرصے تک چھٹکارا حاصل کرنا انھیں میسر نہیں۔

بھوک بڑا مسئلہ ہے

انھوں نے بتایا: ‘میں ایک دن میں تقریباً 300 روپے کماتا ہوں اور اس سے کچھ اپنے کھانے کے لیے خریدتا ہوں اور باقی اپنی بیوی اور دو بچوں کے لیے بچاتا ہوں۔ میرا خاندان مجھ پر منحصر ہے، تو مجھے کام کرتے رہنا پڑے گا، چاہے یہاں سانس لینے میں تکلیف ہی کیوں نہ ہو۔’

جادھو اپنا کام روز چھ بجے صبح شروع کرتے ہیں سواریوں کے لیے قریبی میٹرو سٹیشن جاتے ہیں۔ وہ 11 بجے تک کام کرتے ہیں اور پھر مندروں اور خیراتی گھروں میں مفت کھانے کی تلاش کرتے ہیں۔

دلی کا موسمتصویر کے کاپی رائٹANKIT PANDEY
Image captionنومبر اور دسمبر میں دہلی کے بعض علاقوں میں دن بھر ایسا ہی گرد آلود منظر ہوتا ہے

وہ کھانے پر خرچ اسی وقت کرتے ہیں جب مفت کھانا نہیں پاتے ہیں۔ وہ آدھی رات تک کام کرتے ہیں اور اسی وقت آرام کرتے ہیں جب انھیں کوئی سواری نہیں ملتی۔ وہ شام کا کھانا ان ریستورانوں سے حاصل کرتے ہیں جو بچے ہوئے کھانے بے گھر بے در لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔

لیکن مفت کھانا حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ دلی میں رکشہ چلانے والے عام طور پر بھوکے رہ جاتے ہیں۔

جادھو نے کہا: ‘میں کبھی کبھی کچھ کھائے بغیر ہی رکشہ کھینچتا ہوں اور میں اتنا ہی کر سکتا ہوں۔ لیکن دھواں سب سے خراب ہے۔ اس کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ میں اپنے سینے پر 50 کلو وزن کے ساتھ رکشہ کھینچ رہا ہوں۔

گذشتہ چند دنوں سے وہ بیمار ہیں گذشتہ ہفتے دیوالی سے انھیں کھانسی زیادہ آ رہی ہے۔

زہریلا دھواں اور مجبور مزدور

انھوں نے کہا: ‘مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جب ہوا اتنی خراب ہوتی ہے تو لوگ پٹاخے کیوں جلاتے ہیں؟ وہ تو اپنے گھروں میں بند ہو جاتے ہیں اور ان کے اعمال کا نتیجہ ہم جیسے لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ یہاں کے لوگ بہت بے رحم ہیں۔

رکشہ چلانے والےتصویر کے کاپی رائٹANKIT PANDEY

وہ ابھی اپنی بات کر ہی رہے تھے کہ کئی دوسرے رکشہ چلانے والے ارد گرد جمع ہو گئے اور سب دھویں کے بارے میں شکایت کرنے لگے۔

ان میں سے ایک آنند منڈل تھے جو 18 گھنٹے کام کرنے کے بعد آدھی رات کو کام چھوڑ کر آئے تھے۔

انھوں نے کہا: ‘اتنی دیر تک کام کرنا بہت مشکل ہے۔ میرا سینہ جل رہا ہے اور میں رکشہ چلاتے ہوئے ٹھیک سے سانس بھی نہیں لے پاتا۔ پچھلے سال میرے ایک دوست کی بھی ایسی ہی حالت تھی اور اسے ہسپتال جانا پڑا تھا۔ وہ کئی ماہ تک کام نہیں کر سکا۔ میں ڈرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یہ میرے ساتھ ایسا نہ ہو۔

دہلی میں زیادہ تر رکشہ چلانے والوں کی یہی کہانی ہے۔

دو دہائی قبل پرانی دلی میں کام شروع کرنے والے حسام الدین نے کہا کہ پہلے ہوا دہلی میں اتنی خراب نہیں تھی۔

’ایک رکشہ کھینچنے والے کے طور پر آلودگی کے اضافے میں میرا کوئی کردار نہیں ہے۔ ہمارا رکشہ آلودگی سے پاک ہے لیکن یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ہمیں ہی سب سے زیادہ زہریلے دھويں متاثر ہیں۔

رکشہ چلانے والےتصویر کے کاپی رائٹANKIT PANDEY

ان کا کہنا ہے کہ حکومت رکشہ کھینچنے والوں کی مدد کرے۔

انھوں نے کہا: ‘کم سے کم وہ ہمیں عارضی رہائش گاہ ہی دے سکتے ہیں۔ ہم اس زہر سے رفتہ رفتہ مر رہے ہیں جبکہ ہماری کوئی غلطی بھی نہیں ہے۔ کوئی ہماری پروا نہیں کرتا جیسے ہمارا کوئی وجود ہی نہیں۔’

ان کی مایوسی قابل فہم ہے۔ ریاستی اور مرکزی حکومت باقاعدگی سے لوگوں کو سموگ کے موسم میں گھروں تک محدود رہنے کا مشورہ دیتی ہے۔

لیکن بدقسمتی سے دہلی کے رکشہ کھیچنے والوں کے لیے کوئی متبادل نہیں ہے۔

‘مجھے لگتا ہے کہ بھوک ہمارے لیے آلودگی کے مقابلے میں بڑا مسئلہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم موسم کی پروا کیے بغیر ہر صورت میں کام کرنا جاری رکھتے ہیں۔’

اتنا کہتے ہوئے حسام الدین اسی دھويں میں کہیں گم ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp