شکر کی لازوال دولت سے مالامال ہو جائیے


آج رحمتوں سے مہکتا جمعۃ الوداع ہے۔ کورونا کی وجہ سے مساجد میں اجتماعات محدود ہوں گے، مگر گھروں کے اندر کروڑوں سجدے جبین ہائے نیاز میں تڑپ رہے ہوں گے اور بخشش کے طلب گار بندے اپنے خالق حقیقی کے حضور گڑگڑا کر اپنے وطن کی سلامتی، اہل وطن کی تندرستی اور اپنی مغفرت کی دعائیں مانگ رہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تم جس قدر زیادہ شکر ادا کرو گے، میں اس سے کہیں زیادہ نعمتوں میں اضافہ کرتا جاؤں گا۔ اس قدر عالی شان اعلان کے باوجود ہم بحیثیت قوم ناشکرے واقع ہوئے ہیں۔

حکمران ہوں یا بالادست اشرافیہ، خواص ہوں یا عوام، آپ انہیں شکوہ سنج پائیں گے۔ ہمیں اس نعمت عظمیٰ کی ذرا قدر نہیں کہ ہم ایک آزاد مسلم ریاست کے باعزت اور جفاکش شہری ہیں جو اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت اور دریاؤں اور کوہساروں کی سرزمین ہے۔ ہمارے جغرافیائی محل وقوع کو عالمی طاقتیں جھک جھک کر سلام کرتی ہیں۔

ان بے کنار عظمتوں کے باوجود، ہمارے ارباب اختیار پاکستان کو ایک مثالی ریاست نہیں بنا سکے اور اسلام کے آفاقی تصورات کے مطابق معاشرے کی تشکیل میں ناکام رہے۔ وہ اس لیے کہ ہمارے بیشتر حکمران یہ حقیقت یکسر فراموش کر بیٹھے کہ مطلق العنان تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور انسان اس کا خلیفہ ہے جسے اقتدار امانت کے طور پر سونپا گیا ہے۔ بندگی بجا لانے کے بجائے وہ اللہ کے لہجے میں حکم چلاتے اور انسانوں پر ظلم ڈھاتے رہے۔

غریبوں کا خون چوس کر امیروں نے اپنی بستیاں، اپنے تعلیمی ادارے، اپنے پرشکوہ ہسپتال اور اپنے مفادات کی سلطنتیں علیحدہ قائم کر لی ہیں اور حکومتی انتظامیہ کے اندر گہرے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ تعصبات کا شکار ہوتے گئے اور انہی تعصبات کا کیا دھرا ہے کہ رمضان جو امن و آشتی اور اللہ اور بندے کے درمیان رشتے مستحکم کیے جانے کا مہینہ ہے، اس میں بھی پورا ملک خوف سے لرزتا رہا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ بعض شخصیتوں کی معاملہ فہمی سے تشدد پر قابو پا لیا گیا، مگر یورپی پارلیمان نے واقعات کی صحیح تفہیم کے بغیر پاکستان کے خلاف قرارداد منظور کر لی ہے جس میں تشویش کے بہت سارے پہلو ہیں۔ حکومتی ڈھانچہ مضمحل ہو چکا ہے اور اقتدار کی تکون ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ جناب وزیراعظم اور محترم آرمی چیف کی میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ خفیہ ملاقاتیں بھنور کی صورت اختیار کر کے خطرات کا سگنل دے رہی ہیں۔

ہم ان خطرات کا مقابلہ اپنے رب کریم کی طرف رجوع اور اس کے انعامات اور احسانات کا ہر لحظہ شکر بجا لانے اور فخر موجودات حضرت محمدﷺ کی فرمانبرداری کی روش اختیار کرنے سے کر سکتے ہیں، چنانچہ ماہ رمضان کے جو چند ایام باقی رہ گئے ہیں، ان میں اور باقی گیارہ مہینے بھی مستقل طور پر نمازوں میں سورۃ الرحمٰن کی بکثرت تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کے معانی تک پہنچنے اور اس کے ذریعے متاع شکر حاصل کرنے کا خاص اہتمام کیا جائے۔

یہ سورت اپنی نغمگی، اپنی حلاوت، اپنی تاثیر اور انسانوں کے اندر شکرگزاری کا احساس پیدا کرنے کے اعتبار سے ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ اس عظیم المرتبت سورۃ میں اللہ تعالیٰ انسانوں اور جنوں سے براہ راست خطاب فرماتا ہے اور اپنی نعمتوں، قدرتوں اور اوصاف حمیدہ کا بلیغ انداز میں ذکر کرتے ہوئے سوال کرتا ہے کہ کیا تم انہیں جھٹلانے کی ہمت رکھتے ہو۔ تقریباً ہر آیت کے بعد یہ سوال رباب دل پر مضراب کا کام کرتا ہے اور انسان کی زبان پر الحمدللہ کے الفاظ بے اختیار جاری ہو جاتے ہیں۔ اس سورۃ میں اللہ کی ربوبیت کا رنگ ہی کچھ اور ہے۔ ہم اسے اختصار سے بیان کرنا اپنے قارئین کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔

سورۃ کا آغاز اس مہتم بالشان اعلان سے ہوتا ہے کہ رحمٰن نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے۔ اسی نے انسان کو پیدا کیا اور بولنا سکھایا۔ سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں اور ستارے اور درخت سجدہ ریز ہیں۔ اس نے آسمان کو بلند کیا اور میزان قائم کر دی۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ میزان میں تم خلل نہ ڈالو، انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو۔ زمین میں ہر طرح کے لذیذ پھل اور طرح طرح کے غلے ہیں۔ پس اے جن و انس!

تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گئے؟ اس نے انسان کو ٹھیکری جیسے سوکھے سڑے گاڑے سے بنایا اور جن کو آگ کی لپیٹ سے پیدا کیا، تو پس اے جن و انس! تم اپنے رب کی کن کن عجائبات قدرت کو جھٹلاؤ گے؟ سمندروں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں اور یہ جہاز اس کے ہیں جو سمندروں میں پہاڑوں کی طرح اونچے اٹھے ہوئے ہیں۔ تم اپنے رب کے کن کن احسانات کو جھٹلاؤ گے؟ صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات باقی رہنے والی ہے اور زمین و آسمان میں جو بھی ہیں، سب اپنی حاجتیں اسی سے مانگ رہے ہیں۔ وہ ہر آن ایک نئی شان میں ہے۔ تم اپنے رب کی کن کن صفات حمیدہ کو جھٹلاؤ گے؟

اپنی نعمتوں، احسانات اور اوصاف حمیدہ کے ذکر کے بعد رب المشرقین اور رب المغربین نے دو گروہوں کا حال بیان کیا ہے۔ ایک وہ جو اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں اور دوسرے وہ جو اپنی نافرمانی سے زمین پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ نافرمان گروہ سے ان الفاظ میں خطاب ہوا ہے ’تم زمین و آسمان کی سرحدوں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو، تو بھاگ دیکھو، نہیں بھاگ سکتے۔ تم پر آگ کا شعلہ اور دھواں چھوڑ دیا جائے گا۔ مجرم وہاں اپنے چہروں سے پہچان لیے جائیں گے اور انہیں پیشانی کے بالوں اور پاؤں سے پکڑ پکڑ کر گھسیٹا جائے گا۔

جہنم اور کھولتے پانی کے درمیان وہ گردش کرتے رہیں گے۔ ’دوسرے گروہ کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ‘ ہر وہ شخص جو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کا خوف رکھتا ہو، اس کے لیے دو باغ ہیں، ہری بھری ڈالیوں سے بھرپور۔ جنتی اور شکرگزار لوگ ایسی مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھیں گے جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے۔ ان نعمتوں کے درمیان شرمیلی نگاہ والیاں ہوں گی۔ اے جن و انس! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ ’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments