ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلم مخالف انتخابی مہم


\"Trump\"12جون کو اورلانڈو میں ایک مسلمان عمر متین کی فائرنگ سے 49 افراد کے قتل کے بعد امریکہ میں مسلمانوں کی نگرانی کے حوالے سے شدید بحث شروع ہو چکی ہے۔ ری پبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار بننے کے خواہشمند ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سانحہ کے بعد مسلمانوں کے خلاف عام طور سے بدگمانی اور نفرت پیدا کرنے کی مہم شروع کی ہوئی ہے۔ اس کے مقابلے میں صدر باراک اوباما اور ڈیمو کریٹک پارٹی کی ممکنہ صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے بار بار متنبہ کیا ہے کہ ایک فرد کی کارروائی کے نتیجہ میں ایک عقیدہ یا ایک گروہ کو مورد الزام ٹھہرانے سے امریکی معاشرے کی بنیادی اخلاقیات پر زد پڑے گی۔ تاہم اس کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ اپنی نفرت انگیز مہم کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے۔ اب اس نے تجویز کیا ہے کہ مسلمانوں کی نگرانی کا بہتر نظام استوار کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ملک میں دہشت گردی کے بارے میں قبل از وقت علم ہو سکے۔ اس تجویز کے تحت مسلمانوں کی پروفائلنگ PROFILING کی جا سکے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ کار عام طور سے امتیازی سلوک اور تعصب آمیز برتاؤ کا سبب بنتا ہے اور امریکی آئین کے خلاف ہے۔ لیکن ٹرمپ کا موقف ہے کہ امریکی شہریوں کی حفاظت سیاسی مصلحتوں سے زیادہ اہم ہے۔

تاہم اسلامی انتہا پسندی کے حوالے سے بحث صرف امریکہ تک محدود نہیں ہے۔ جب بھی قتل و غارتگری یا دہشتگردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے اور اس میں کوئی مسلمان ملوث ہو تو امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں تند و تیز مباحث کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اگرچہ امریکی شہریوں کی حفاظت کے لئے انتہائی اقدامات کی بات کرتا ہے لیکن اس کی توجہ اپنی انتخابی مہم پر مرکوز ہے۔ وہ سب سے پہلے ری پبلکن پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کے بعد اس کا ٹارگٹ امریکہ کا صدر منتخب ہونا ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ صدر بننے کی صورت میں وہ امریکہ کی پالیسیوں میں کتنی تبدیلیاں لا سکے گا۔ اور ان پالیسیوں کا امریکہ میں آباد مسلمانوں اور دنیا کے متعدد مسلمان ملکوں کے ساتھ امریکہ کے تعلقات پر کیا اثر مرتب ہو گا۔ لیکن اس میں بھی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی باتیں صرف نعرے بازی نہیں ہیں۔

صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ کے آغاز میں یہ کہا جاتا تھا کہ وہ پرائمریز جیتنے اور زیادہ ڈیلیگیٹ حاصل کرنے کیلئے بعض احمقانہ حد تک انتہا پسندانہ اور یک طرفہ تجاویز پیش کرتا ہے۔ لیکن اب وہ ری پبلکن پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے والا واحد امیدوار ہے۔ اور اسے مطلوبہ سے زیادہ ڈیلیگیٹس کی حمایت بھی حاصل ہو چکی ہے۔ ماہرین کا خیال تھا کہ اس مرحلے سے گزرنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ اپنا لب و لہجہ تبدیل کرے گا اور زیادہ مہذب اور سفارتی رویہ اختیار کرے گا۔ تاہم 12 جون کو اورلانڈو سانحہ کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے جس طرح مسلمانوں کے خلاف مہم شروع کی ہے اور واضح طور سے یہ قرار دیا ہے کہ تمام مسلمان دہشت گردی میں ملوث ہوتے ہیں اور ان سے امریکہ کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔ یہی نہیں ٹرمپ نے صدر باراک اوباما کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اسلامی انتہا پسندی کے ہمدرد ہیں اور انتظامیہ کو انتہا پسند مسلمانوں کے خلاف کام کرنے سے روکنے کے جتن کرتے ہیں۔ اس طرز عمل کے بعد یہ کہنا ناممکن ہے کہ امریکہ کا صدر بننے کے بعد وہ اپنے بیان کردہ موقف سے بہت زیادہ انحراف کرسکے گا۔

ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ نومبر میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کا کتنا امکان ہے۔ کیونکہ ابھی انتخاب میں کئی ماہ باقی ہیں۔ کوئی واقعہ یا اسکینڈل کسی بھی امیدوار کی انتخابی پوزیشن میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ امریکہ میں اسلامی دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ کا سبب بنے گا۔ وہ عام آدمی کے خوف کو مضبوط کر کے اسے اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ گزشتہ ویک اینڈ پر اورلانڈو میں ہونے والے سانحہ کے بارے میں امریکی حکام نے واضح کیا ہے کہ اس میں داعش یا کسی بیرونی دہشت گرد گروہ کا ہاتھ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ عمر متین امریکہ میں پیدا ہونے والا امریکی شہری تھا۔ اگرچہ اس کے والدین کا تعلق افغانستان سے ہے۔ یہ بات بھی سامنے آ چکی ہے کہ یہ قاتل ذہنی طور پر مستحکم شخصیت کا مالک نہیں تھا۔ ابھی یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اس کا ہم جنس پرستی کی طرف کس حد تک رجحان تھا۔ حملہ آور اگرچہ ایک مسلمان تھا لیکن اس کا طرز زندگی کسی انتہا پسند مذہبی مسلمان جیسا نہیں تھا۔ اس کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ نے اس واقعہ کو بنیاد بنا کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ صرف اس لئے شروع کیا ہے کیونکہ اس طرح لوگوں کو ہراساں کر کے اپنے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔

صدر باراک اوباما نے ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمانوں کے خلاف مہم کے جواب میں واضح کیا ہے کہ ہمیں دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ باور نہیں کروانا چاہئے کہ مغرب ان سے نفرت کرتا ہے۔ اس طریقہ سے امریکہ زیادہ محفوظ نہیں بلکہ غیر محفوظ ہو جائے گا۔ صدر اوباما اور ہیلری کلنٹن نے یکساں طور سے اس بات پر زور دیا ہے کہ نفرت اور الزام تراشی کی مہم کے ذریعے امریکی مسلمان نوجوانوں کو داعش اور دیگر انتہا پسند گروہوں کا شکار بننے کے لئے تنہا نہ چھوڑا جائے۔ بلکہ انہیں اپنے ساتھ لے کر چلا جائے تا کہ معاشرہ انتشار اور تضادات کا شکار نہ ہو۔ تاہم یہ باتیں ابھی تک ڈونلڈ ٹرمپ جیسے لیڈروں کو سمجھ آنا مشکل ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرا کر ایسا ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے کہ سیاسی کامیابی حاصل کی جا سکے۔ اس کے بعد کیا ہو گا ۔۔۔۔۔ اس سوال کا جواب خود ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس بھی نہیں ہے۔ جس طرح 9/11 کے حملوں کے بعد جارج بش نے پہلے افغانستان اور پھر صدام حسین کے تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بارے میں جھوٹ بول کر عراق پر حملہ کیا۔ ان حملوں کے نتیجے میں لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ افغانستان کے علاوہ شام ، لیبیا ، یمن اور عراق جنگ کا سامنا کر رہے ہیں۔ ترکی اور پاکستان جیسے ملک اپنی مضبوط فوجی قوت کے باوجود امریکہ کی نافذ کردہ جنگ سے پیدا ہونے والے نتائج کو بھگت رہے ہیں۔ اس کے باوجود امریکی لیڈر نفرت اور جنگ کی زبان میں بات کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ کوئی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے کہ جارج بش نے مہلک سیاسی غلطی کی تھی۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اورلانڈو سانحہ کے بعد جو تجاویز پیش کی ہیں، ان کے مطابق امریکہ کو صرف مسلمانوں سے خطرہ ہے۔ اس لئے فوری طور پر تمام مسلمانوں کے امریکہ داخلے پر عارضی پابندی عائد کی جائے۔ اس دوران امریکی حکومت یہ طے کرے گی کہ کن شرائط پر کسی مسلمان کو امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت مل سکے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن ملکوں میں دہشت گردی پائی جاتی ہے، وہاں سے امیگریشن پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہئے۔ لیکن سب سے خطرناک تجویز یہ ہے کہ امریکہ میں آباد 35 لاکھ مسلمانوں کو مشتبہ سمجھا جائے اور ان کی نگرانی اور کنٹرول کا نظام استوار کیا جائے۔ اسی تجویز کے حصہ کے طور پر ٹرمپ مساجد کی نگرانی کی بات بھی کرتے ہیں اور وہاں جاسوس متعین کرنا چاہتے ہیں۔ اگر امریکہ کسی مرحلہ پر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجاویز کے بعض حصوں پر بھی عمل کرنے لگا تو وہ آزادی اور مساوات کی اس بنیاد سے محروم ہو جائے گا، جس کی وجہ سے وہ دنیا بھر کے ذہین لوگوں کو اپنے ہاں اکٹھے کرتے ہوئے دنیا کی واحد سپر پاور بننے میں کامیاب ہوا ہے۔ اسی لئے امریکی صدر اوباما نے یہ کہا ہے کہ مسلمان نہیں ڈونلڈ ٹرمپ غیر امریکی ہونے کا ثبوت دے رہا ہے۔

امریکہ میں گزشتہ 10 برس کے دوران فائرنگ کے 43 واقعات ہوئے ہیں۔ ان میں سے صرف جنوری میں سان برنارڈینو اور اب اورلانڈو کے واقعات میں مسلمان ملوث تھے۔ باقی واقعات میں اکثر صورتوں میں ابھی تک یہ تعین بھی نہیں ہو سکا کہ فائرنگ کر کے بے دریغ شہریوں یا اسکول و کالجوں کے طالب علموں کو مارنے والوں کا کیا مقصد تھا۔ انہوں نے یہ انتہائی اقدام کیوں کیا تھا۔ اس کی ایک وجہ محرومی اور مایوسی سے پیدا ہونے والا نفسیاتی دباؤ ہے جو کسی انسان کو انتہائی اقدام پر مجبور کر دیتا ہے لیکن اس کی واحد سب سے بڑی وجہ امریکہ میں اسلحہ کی آزادانہ خرید و فروخت ہے۔ کوئی بھی شخص آسانی سے نہایت مہلک ہتھیار خرید سکتا ہے۔ اسلحہ خریدنے کے حق کو ملک کی مضبوط اور طاقتور ’’گن لابی‘‘ کی وجہ سے بنیادی انسانی حق کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ صدر اوباما نے اسلحہ کی خرید اور ملکیت پر پابندی لگانے کی متعدد بار کوشش کی ہے اور کانگریس کو اس بارے میں واضح قانون سازی کی سفارش کی ہے لیکن انہیں اس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ اب پھر کانگریس میں اسلحہ پر کنٹرول کے سوال پر تجاویز سامنے لائی گئی ہیں لیکن اس بات کا امکان نہیں ہے کہ اس بارے میں کوئی فیصلہ ہو سکے گا۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں مصروف ڈونلڈ ٹرمپ اسلحہ کنٹرول کے بارے میں کوئی بات کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں، کیونکہ اسلحہ رکھنے کی آزادی کے حامی گروپ ٹرمپ کی صدارتی مہم کی حمایت کر رہے ہیں۔

اگرچہ امریکہ کی صدارتی مہم کی وجہ سے بھی اسلامی انتہا پسندی کے بارے میں زیادہ سخت اور درشت باتیں کی جا رہی ہیں لیکن ان مباحث کا لوگوں کے عمومی رویہ پر اثر مرتب ہو رہا ہے۔ نفرت کو ختم کرنے کےلئے نفرت کی بجائے حکمت اور عقلمندی سے اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت دنیا اسلام کے نام پر جس انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کر رہی ہے، اس کا تعلق اسلامی تعلیمات کی بجائے امریکہ اور اس کے حامی ملکوں کی استحصالی پالیسیوں سے استوار ہے۔ مختلف ملکوں میں امریکہ کے سامراجی عزائم کے خلاف احتجاج منظم کرتے ہوئے بعض گروہوں نے اسلام کو استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ افغان طالبان ہوں یا مشرق وسطیٰ کا گروہ دولت اسلامیہ ، ان کی بنیادی لڑائی امریکہ کی توسیع پسندانہ پالسیوں کے خلاف ہے۔ القاعدہ نے بھی سعودی عرب میں امریکی افواج کی آمد کے بعد دہشت گرد گروہ کے طور پر کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔ صورتحال کو بدلنے کےلئے اسلام اور مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے امریکہ کو دنیا بھر میں اپنے توسیع پسندانہ منصوبوں پر بھی نظرثانی کرنا ہو گی۔ ورنہ تصادم کی صورتحال میں مزید اضافہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments