حسین نقی کا مرتبہ


تم لوگ اپنی انرجی ادھر اُدھر آنے جانے میں ضائع کرنے کے بجائے کسی “بامقصد کام میں صرف کیوں نہیں کرتے” یہ جملہ سُن کر جیسے مجھے ایک دھچکا سا لگا کہ ہماری سرگرمیاں کیا واقعی بے مقصد اور فضول ہیں، یہ جملہ حسین نقی صاحب نے ادا کیا، جن کے ساتھ ہمارا واسطہ طلبہ سیاست کے حوالے سے کم وبیش رہتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بائیں بازو کی سیاست میں تمام رہنماؤں کے صحافت سے وابستہ اپنے ہم خیال صحافیوں سے اچھے مراسم ہوتے تھے۔ اور وہ لوگ ان دانشور حضرات سے اکثر اپنی سرگرمیوں پر رہنمائی لیتے یا مشاورت ضرور کرتے۔ انہیں کی ہدایت کے پیش نظر ہم نوجوانوں کو بھی ان صحافیوں سے میل ملاپ رکھنے کی ڈیوٹی ہوتی تھی۔

نوابزادہ مظہر علی خان ایک بااصول اور نظریاتی صحافی تھے، ان کی زیرنگرانی انگریزی ہفت روزہ ویوپوائنٹ لارنس روڈ سے شائع ہوتا تھا۔ اسی دفتر میں آئی اے رحمان صاحب اور حسین نقی صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوتا۔ نوابزادہ مظہر علی خان مصروف بھی ہوتے ان کی شخصیت اتنی بارعب تھی کہ ہمت نہیں پڑتی تھی۔ اگرچہ نقی صاحب بھی کام میں مشغول پائے جاتے لیکن انہوں نے ہمیشہ نوجوانوں کیلئے وقت نکالا۔ وہاں اور بھی دانشور حضرات کی نشست ہوتی، جن میں ظفر اقبال مرزا، شفقت تنویر مرزا اور ظفر یاب شامل تھے۔

یہ سب لوگ ہمیں کوئی نہ کوئی پتے کی بات بتا دیتے تھے، شاید اسی لالچ میں ہمارا اُس طرف چکر ضرور لگ جاتا تھا۔

اُس روز بھی اپنے ساتھی کے ہمراہ وہاں گیا تو حسین نقی صاحب نے ہمیں کہا کہ تم نوجوانوں کو پنجابی زبان کے لئے عملی طور پر کچھ کرنا چاہئے، محض نعرے لگانے سے کچھ نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا پنجابی کا پہلا اخبار شروع ہوگیا ہے، وہاں آکر اپنا حصہ ڈالا کریں۔

ہم نے ہامی بھرلی، مگر یہ محض ایسا وعدہ تھا جسے اکثر نوجوان بزرگوں سے جان چھڑانے کے لئے کر لیا کرتے ہیں۔ ہم دونوں میں سے کوئی بھی وہاں نہ گیا۔

اس بات کو دو تین ماہ گزر گئے، ایک دن اچانک میرے دوست گھر آئے اور انہوں نے ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد مدعا بیان کیا کہ ہم اخبار میں بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں مگر ان دنوں کئی لوگ جان بچا کر بھاگ گئے ہیں۔

میں نے پوچھا بھاگے کیوں؟ کیا وہاں کوئی سخت اور ناپسندیدہ کام ہوتا ہے؟

انہوں نے جواب دیا پنجابی زبان بولنی شاید آسان ہے لکھنے اور پڑھنے میں ہم لوگ گھبرا جاتے ہیں۔ اردو اور انگلش چونکہ سٹیٹس سمبل بن چکی ہے نہ بھی آتی ہو زور آزمائی کئے بغیر نہیں رہتے مگر پنجابی نہ جانے کیوں شرمندگی کا باعث بن جاتی ہے۔

انہوں نے کہا ہمارا ساتھ دو میں اس بار وعدہ کیا اور اگلے روز چلا گیا۔  نقی صاحب نے اس بات کا احساس تک نہ ہونے دیا کہ تمہیں میں نے پہلے بھی دعوت دی تھی مگر تم اس وقت تو نہ آئے۔

انہوں نے پہلے روز سے ہی ایسی بھرپور قسم کی حوصلہ افزائی کی اور کچھ ان کی شخصیت کی کشش تھی کہ جب وہ بولتے تو میں جیسے مکمل طور پر ہمہ تن گوش کی سی کیفیت میں آجاتا، اور کوئی بات ذہن میں نہ ہوتی۔ نقی صاحب نے اہل زبان ہونے کے باوجود پنجابی کا پہلا اخبار نکال کر ایک نئی روایت ڈالی بلکہ پنجابی بولنے والوں کو ایک سبق بھی دے دیا کہ اپنی ماں بولی کو بولنے میں کبھی عار اور شرم محسوس نہ کرو۔ یہ تمہارا بنیادی حق بھی ہے اور تم پر قرض بھی ہے۔

نقی صاحب کی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں لیکن ان کی تہیں ہیں، جنہیں بڑے غور سے دیکھنا پڑتا تھا، کیونکہ عام آدمی کے لیے وہ ایک بالکل سادہ انسان ہیں، ہاں کچھ لوگوں کے لئے پیچیدہ بھی ہوجاتے ایسے لوگ نقی صاحب سے بات کرنے میں تھوڑا گریز ہی کرتے انہیں معلوم ہوتا کہ وہ اپنے کسی غلط اقدام یا سوچ کے نتیجے میں نقی صاحب کے غیض وغضب کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔

نقی صاحب کے کچھ اصول ہیں ان کے مطابق ہی زندگی کے معمولات اور روز مرہ کے امور انجام دیتے ہیں۔ ان اصولوں پر وہ کئی برسوں بعد آج بھی پوری طرح کاربند ہیں۔ ان کی باتوں اور کام کرنے کا اندازہ بھی بالکل تبدیل نہیں ہوا۔

نقی صاحب ایک پرعزم ٹریڈ یونینسٹ ہیں، ان کے اندر موجود ورکر ہمیشہ تازہ دم اور اپنے حقوق وفرائض دونوں سے مکمل طور پر آگاہ رہتا ہے۔ وہ اسی جذبے اور سوچ کی بنا پر زندگی میں کسی بھی انتظامی ذمہ داری پر بیٹھنے کے باوجود کبھی ایک کارکن کے مسائل سے بے خبر نہیں رہے۔

انہوں نے طلبا سیاست سے اس کام کا آغاز کیا اور جیسا کہ انہیں کی زبانی بے شمار واقعات سن چکے ہیں کہ وہ کیسے حقوق کی جنگ لڑتے رہے ہیں۔ یہ جدوجہد کوئی آسان نہیں ہوتی اس میں کئی رکاوٹیں بے شمار مسائل اور حالات کی تلخی بھی دیکھنی پڑتی ہے۔ یہ سلسلہ صحافت میں قدم رکھنے کے بعد بھی جاری و ساری رہا۔ پریس کلب کی سیاست ہو یا پھر صحافتی یونین کی ذمہ داریاں، پاکستان میں صحافی یونین کی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر نامکمل خیال کی جائے گی۔

نقی صاحب نے مارشل لاء کے ادوار میں مختلف صعوبتیں جن میں جیل جانا بھی شامل تھا، برداشت کیں، زندگی میں ثابت قدمی ان کی سب سے بڑی طاقت رہی ہے۔ جس کی ان کے نظریاتی مخالفین بھی تعریف کرتے ہیں۔ ان جیسی وضعداری اور اصول پسندی آج کے دور میں خال خال ہی دیکھنے میں ملتی ہے۔ شخصیت میں سب سے بڑھ کر لکھنوی انداز، اسے مزید دوسروں سے منفرد کرتا ہے، اور یہ محض اتفاق نہیں بلکہ حقیقت ہھی ہے ان کا خاندانی پس منظر بھی وہیں کا ہے۔

نقی صاحب کا شاگرد کہلانا بھی ہم سب کے لئے باعث فخر بات ہے، نئے آنے والوں کو جب بتاتے کہ نقی صاحب ہمارے استاد ہیں تو وہ یہی خیال کرتے کہ یونیورسٹی کے ٹیچر ہوں گے، لیکن نقی صاحب ٹیچر نہیں بلکہ حقیقی استاد تھے اور ہیں۔ جن کا مرتبہ روحانی باپ سے کم نہیں، وہ ایسے ہی سلوک کرتے ،جیسے اپنے بیٹوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ انہیں ہماری پریشانی، تکلیف حتیٰ کہ ذاتی نوعیت کے کسی مسئلے پر بھی گہری تشویش ہوتی ہے، جسے دور کرنے کے لئے وہ ہمہ وقت دستیاب ہوتے۔

یہ شاید بالکل کبھی نہیں ہوا کہ نقی صاحب سے ملاقات کے لئے وقت مانگا ہو اور انہوں نے انکار کردیا ہو۔ بڑی مصروفیت بھی ہوتی تو کوئی وقت طے کرلیتے، پابندی وقت اور وعدے کی تکمیل یہ ان کی بڑی خصوصیت ہے۔

نقی صاحب سے ماضی کے حکمرانوں کو بھی واسطہ پڑتا رہا جن میں ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، یہ لوگ بھی نقی صاحب سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، اپنی سیاست پر اُن سے مشاورت تک کرلیتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق سے دو ٹوک سوال کر لیتے تھے۔

یہ لوگ جانتے تھے کہ حکومتی معاملات میں کیا درست ہے اور کیا غلط، اس سے متعلق حسین نقی کی رائے بے حد اہم اور سود مند ثابت ہوسکتی ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar