ایس پی طاہر داوڑ کی شہادت۔ چند سوالات


خیبرپختو نخواہ میں امن وامان کے حوالے سے نمایاں خدمات سرانجام دینے والے نڈر پولیس افسر محمد طاہر داوڑ کے اغواء اور بعد میں ان کی مبینہ شہادت نے ایک کے بجائے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔

ایسے سوالات کا تسلی بخش جواب دینا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے بشرطیکہ ریاست ایک بنانا ری پبلک نہ ہو۔ اور حال یہ ہے کہ محمد طاہر داوڑ کے اغواء اور شہادت سے پیدا ہونے والے سوالات کا دوٹوک اور تسلی بخش جواب دینے سے حکومت تاحال کتراتی نظر آتی ہے۔

ایس پی محمد طاہر داوڑ چھبیس اکتوبر کو اس وقت دارالحکومت اسلام آباد (سیف سٹی) سے اس وقت لاپتہ ہوگئے تھے جب وہ شام کو اپنے گھر سے کچھ دیر کے لئے باہر نکلے تھے۔ واپس ہونے میں جب دیر ہوگئی تو وہاں پر ان کے موجود لواحقین نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا موبائل فون آف پایا گیا۔

معروف صحافی سمیع اللہ داوڑ کے مطابق اس بارے میں جب ان کو بھی اطلاع دی گئی تو انہوں نے بھی طاہر داوڑ سے ان کے موبائل فون پر رابطہ کیا لیکن فون اٹینڈ کرنے کے باوجود انہیں کو اسی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ بعد میں ان کے اہلخانہ کو طاہر داوڑ کے فون سے انگریزی زبان میں ایک ٹیکسٹ پیغام آتا ہے ( اگرچہ گھر والوں کے مطابق وہ عموماً اردو زبان میں پیغام بھیجتے تھے ) جس میں کہا گیا تھا کہ وہ عافیت سے ہیں اور جلد گھر واپس لوٹ آئیں گے ”۔

اس کے بعد پھر ان کی پر اسرار گمشدگی طول پکڑتی گئی اور اٹھارہ دن مسلسل گمشدگی کے بعد۔ افغانستان کے صوبے جلال آباد سے ان کی مسخ شدہ لاش کی تصویروں نے ان کی شہادت پر مہر تصدیق ثبت کردی۔

طاہر داوڑ کی میت کو جمعرات کے دن طورخم بارڈر پر افغان حکومت سے قبائلی عمائدین اور پاکستانی حکام نے وصول کر لی، گھر پہنچانے کے بعد پشاور کے شہید سعد پولیس لائن میں اس کی نماز جنازہ پڑھائی گئی، اس کو پولیس کے چاق وچوبند دستے نے سلامی بھی پیش کی اور پھر پھر تدفین بھی کردی گئی لیکن ان کے جانے کے بعد بے شمار سوالات اب بھی بدستور زندہ ہیں۔

پہلا سوال سیف سٹی اسلام آباد کی سیکورٹی کے حوالے سے اٹھتا ہے کہ کیوں اور کیسے ایک پولیس افسر کو دن دیہاڑے اغواء کر لیا جاتا ہے لیکن سیکورٹی اداروں کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی؟ کیا سیف اینڈ پول پروف سٹی کا مطلب یہی ہے کہ ایسے شہر کے سینکڑوں سی سی ٹی وی کیمروں میں سے نصف کے قریب کیمرے ناکارہ ہوں گے؟

دوسرا سوال وزیراعظم کے ترجمان افتخار درانی کی مبینہ انٹرویو نے جنم دیا ہے جن کو ایک ہائی پروفائل پولیس افسر کی گمشدگی کے دو دن بعد بھی یہ علم نہیں کہ وہ پشاور میں خیریت وعافیت سے ہیں یا اغواء کاروں کے نرغے میں ہیں؟

وائس آف امریکہ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں افتخار درانی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ مذکورہ پولیس افسر پشاور میں اپنے گھر میں موجود ہیں اور ان کے اغوا کی خبر یں بے بنیاد ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ درانی صاحب نے اس انٹرویو میں نہ صرف طاہر داوڑ کی حفاظت کابڑے پر اعتماد لہجے میں دعویٰ کیا تھا بلکہ انٹرویو لینے والی خاتون کی خبر کو بھی غلط اور مضحکہ خیز قرار دے کر ہنستے ہوئے کہا تھا کہ

” یہ کیسے ہوسکتاہے کہ امریکہ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کوتو ان کے اغوا کے بارے میں علم ہو اورہمیں نہیں نہ ہو؟ “ اسی طرح تیسرا سوال وزیر مملکت برائے امورداخلہ شہریار آفریدی کا بیان اور رویہ پیدا کرتا ہے جنہوں نے اس معاملے کو حساس قرار دے کر اس پر بات کرنے سے معذرت کرلی تھی۔ آفریدی صاحب کی معزرت سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ موصوف وزیر برائے داخلہ امور ہونے کے باوجود بھی قدرت اور اختیارات سے عاری ہیں۔

چوتھا معقول سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آخر دہشتگرد افغانستان سے کیسے اتنی آسانی کے ساتھ نہ صرف داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے بلکہ ایک ہائی پروفائل پولیس افسر کو اغوا کرکے لے بھی گئے۔ قدم قدم پر سیکورٹی چیک پوسٹیں اور ناکوں کے باوجود آخر دہشتگردوں کے پاس وہ کون سی گیدڑ سنگھی تھی جس کی برکت سے ان پر کسی کی نظر نہیں پڑتی۔ بلکہ طاہر داوڑ کی گمشدگی ہی کے چند دن بعد جڑواں شہر راولپنڈی کے محفوظ ترین علاقے بحریہ ٹاون میں جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو بھی شہید کیاگیا تھا جن کے قاتل تا حال گرفتار نہیں ہوئے ہیں۔

سابق کرکٹر شاہد آفریدی نے تو بجا کہا تھا کہ ہم سے چار صوبے سنبھل نہیں پارہے اور ہم کشمیر کی بات کرتے ہیں۔ شاہد آفریدی کے اس بیان پر بہت سے محبان ِ وطن تو سیخ پا نظر آتے ہیں کہ انہوں نے ایسی بات کیوں کہہ دی ہے حالانکہ دل کی بات کہی جائے تو شاہد آفریدی کا یہ دعویٰ سو فیصد سچائی پر مبنی ہے۔

آفریدی نے تو پھر بھی چار صوبوں میں ریاستی رٹ کی کمزوری پر انگشت نمائی کی تھی لیکن حال یہ ہے کہ آج کل ہم سے صرف اسلام آباد بھی سنبھل نہیں پارہا۔ دلیل اس کی یہ ہے اسی سیف سٹی میں بھی دہشتگرد اور دہشتگردوں کے سہولت کار کسی بھی وقت ڈنکے کی چوٹ پر کسی بھی قسم کی واردات کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک اور ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ عوامی نیشنل پارٹی کی رکن اسمبلی طاہرہ جبین کا کہنا تھا کہ جب بھی وہ ایس پی طاہر داوڑ کی گمشدگی کی تحقیقات کے بارے میں حکومت سے پوچھتی ہیں تو انہیں بڑی حقارت سے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اپوزیشن خود جاکر اس کی تحقیقات کرے۔

وزیراعظم عمران خان نے تو اس بارے میں مکمل تحقیقات کا حکم دیا ہے لیکن دیکھتے ہیں کہ کیا وہ ان تحقیقات کا دائرہ کہاں تک وسیع کرتے ہیں؟ نیز کیا وہ اس تحقیقاتی رپورٹ میں قوم کو اپنے وزراء کی مبینہ غفلت، ان کی اس کیس سے اظہار لاتعلقی و سرد مہری اور سیف سٹی میں لگائے گئے ناکارہ کیمروں کی موجودگی جیسے اہم سوالات کے تسلی بخش جوابات دے پائیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).