جون ایلیا کا نظمیہ اور فلسفیانہ ادراک


گندم کی خوشہ چینی جس کی بنا پر آدم کو جنت سے نکلنے کا حکم ہوا تھا، اسی نان جویں کی تلاش میں اس درویش پر تقصیر نے عرصہ تیس سال میں پاکستان کی صورت صرف دو ہفتوں کے لئے بس ایک دفعہ ہی دیکھی ہے۔ اس کڑی سزا میں اس خاکسار کا تارک دنیا ہونا بھی شامل ہے۔ بہتری یہ ہوئی کہ خادم پاکستانی اردو کی ادبی گروہ بندیوں سے صاف بچ نکلا اور سوچ سمجھ کے بہت سے زاویے صرف انگریزی میں ہی سیدھے ہوئے۔

چند سال پہلے ٹورونٹو کینڈا میں رائیٹرز فورم کی ایک محفل میں محترم منیر سامی صاحب نے اس خاکسار کو جون ایلیا پر ایک مضمون پڑہنے کی دعوت دی تھی جس میں کئی احباب کے علاوہ عزیز دوست شاہد رسام اور نزہت صدیقی بھی موجود تھے۔ اس محفل میں شاہد رسام نے بھی جون ایلیا پر ایک خوبصورت مضمون پڑھا تھا جو ویڈیو کی شکل میں موجود ہے اور اس خاکسار کا مضمون بھی۔ شاہد رسام چونکہ خود آرٹسٹ ہیں اور نزہت صدیقی بہت اہتمام سے شعر کہتی ہیں، میرے لئے ان دونوں کی برابری کا دعوی تو قرین از قیاس ہے۔

اس کے باوجود جون ایلیا کے بارے میں میرے کچھ خیالات ہیں۔ رائٹرز فورم کی تقریب میں جون ایلیا صاحب کے بارے میں گفتگو ایک تقریر کی شکل میں تھی۔ ذیل کے مضمون میں بہت سی باتیں اسی تقریر سے لی گئی ہیں۔ تاہم انہیں مضمون کی شکل میں لکھنے کی ترغیب گزشتہ چند دنوں میں ”ہم سب“ پر شائع ہونے والے مضامین کی وجہ سے ہوئی۔ اس کے لئے میں محترم علی زریون اور نجم سہروردی صاحب کا شکر گزار ہوں۔

جون ایلیا کا شاعرانہ لب و لہجہ اور گفتگو کا بے ساختہ پن ہمیں بہت بھاتا ہے۔ ان کی غزل کی زبان میں روزمرہ اور کیفیت کا جو عنصر ہے، وہ کسی اور کے حصے میں کم ہی آیا ہے۔ کہیں کسی محفل میں انہوں نے الاعلان کہا تھا کہ میں بونا شاعر ہوں اور ہم سب ہیں کہ جون کے اس اعلان کی جرات رندانہ پہ فریفتہ ہیں اور ہونا بھی چاہیے کہ اس اعلان کے لئے واقعتاً جرات رندانہ چاہیے جو ان میں سوا تھی۔ مگر اس بات پہ ہمارا دھیان ذرا کم کم ہے کہ یہ تو نطشے کے عظیم سانحے
The Birth of Tragedy
کی روداد ہے جس میں بادشاہ مائیدس جنگل میں اساطیری صاحب دانش ”سلینس“ کو اسیر کرنے کی تدبیر کرتا ہے اور پھر ایک موقع پر اسے پکڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

بادشاہ اس سے گفتگو کرنا چاہتا ہے مگر سلینس خاموش رہتا ہے۔ بالآخر مجبور ہو کر جو وہ کہنا نہیں چاہتا، وہ بادشاہ سے کہہ گزرتا ہے۔ ”تم بنی نوع انسان جو زمانے کی بد بختی کا نشان ہو، تم جو اتفاق اور حوادث زمانہ کی پیداوار ہو، تم مجھے کیوں مجبور کرتے ہو وہ بات منہ سے نکالوں جس کے سننے کا نہ تم میں یارا ہے اور جس کا نہ سننا ہی تمہارے حق میں بہتر ہے؟ موجود ہونے کی وہ کیفیت جو بہترین ہے وہ تمہاری پہنچ سے باہر ہے۔ کہ تم انسان جیسی مخلوق کبھی پیدا ہی نہ ہوتے تو بہتر تھا، بلکہ کبھی تمہارا وجود ہی نہ ہوتا اور تم کبھی موجود ہی نہ ہوتے تو یہ بات بہترین ہوتی۔ تمہارے وجود رکھنے کے بعد۔ اب جو دوسرا نسخہ تمہارے لئے ہے، وہ یہ ہے کہ تم جلد از جلد نیستی سے ہم کنار ہو جاؤ“۔

جون ایلیا۔ میں ایک بونا شاعر ہوں۔ ان کے بارے میں اس تمہید کے پیچھے ایک کہانی ہے۔ جون ایلیا اپنے آپ کو بونا شاعر کہتے ہوئے اس تعارف میں قدیم یونانی ڈرامے کے ایک اساطیری کردار نظر آتے ہیں مگر مشاعرے میں اور ان کی مشہور ترین غزلوں میں ان کا یہ کردار کبھی سامں ے نہیں آیا کیونکہ وہ پر گو بھی تھے اور خاص و عام میں یکساں مقبول بھی تھے۔ یہ بات کوئی 20 برس پرانی ہو گی۔ میں یونیورسٹی آف کیلگری میں پروفیسر بن کے نیا نیا وارد ہوا تھا کہ اچانک نزہت صدیقی صاحبہ کا ٹورونٹو سے فون آیا۔ پوچھنے لگیں کیا جون ایلیا سے واقفیت ہے؟ میں نے ہاں میں جواب دیا اور حوالے کے طور پر چند ایک زبان ز دِ عام اشعار بھی داغ دیے۔

یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑ تا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

میں نے کہا اور ان شعروں کی تو کیا ہی بات ہے اور اس طرح کے بے شمار شعر اور بھی ہیں :

میں بھی اذنِ نوا گری چاہوں
بے دلی بھی تو لب ہلاتی ہے
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹو ٹ جاتی ہے۔

کہنے لگیں، یہ سب تو ٹھیک ہے مگر ان کی نظم ”رمزِ ہمیشہ“ جو ان کے مجموعہ کلام ”شاید“ میں ہے، کو پڑھے اور سمجھے بغیر نہ جون ایلیا سے تعارف مکمل ہو سکتا ہے اور نہ ہی اردو شاعری کے فکری سرمائے سے۔ یہ نظم اپنی نامیاتی وسعت میں اور کاسمالوجی کے اعتبار سے دنیا کی عظیم ترین نظموں میں شامل ہونے کے لائق ہے۔ اس کے بعد یہ نظم انہوں نے فون پر سنائی۔ بھلا ہو نزہت کا کہ جن کی بدولت مجھے پہلی دفعہ جون ایلیا کے تدبر اور وسعتِ نظر کا اندازہ ہوا۔ آج تک اس نظم میں ہر دفعہ ایک نئی معنی آفرینی محسوس ہوتی ہے۔ اس نظم کی تفصیل تو پھر کبھی سہی مگر میں جون ایلیا کی نظری وسعت اور فکری گہرائی کا اسیر ہو کر رہ گیا۔

جون ایلیا کی تمام شاعری اور نثری تحریر کے اندر فکر، انگیخت اور جذباتی تنا ؤ کے پیرائے میں رائیگانی ایک کی دکھتی رگ ہے اور مرگِ انبوہ کا ایک ماتم ہے جو قدیم یونانی ٹریجڈی کی یاد دلاتا ہے جس کا ذکر نطشے کے حوالے سے پہلی سطور میں ہو چکا ہے۔ زندگی کو مرتسم کرنے کے تخلیقی لمحے میں بہ حیثیتِ شاعر اور نثر نگار جون ایلیا وہ ماسک تھے جسے قدیم یونانی ڈرامہ کار اپنے چہرے پہ چڑہاتے تھے۔ اسے انگریزی لٹریچر کی اصطلاح میں ”پرسونا “ کہا جاتا ہے کیونکہ اصلِ حقیقت فن کار نہیں بلکہ وہ تخلیقی قوت ہے جس کا اظہار ن۔ م۔ راشد کی زبان میں ”مو قلم، ساز، گلِ تازہ اور تھرکتے پاؤں“ ہیں اور شاعر، موسیقار، ادا کار اور تخلیق کار تو اُس تخلیقی وحدت کا محض آلہء کار ہیں۔

جون ایلیا سر شار، مجذوب اور سر تا پا ایک تخلیق کار تھے اور انہوں نے اپنے وجدان کو تخلیق کے الوہی دھارے پہ چھوڑ رکھا تھا جس کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کے اندر اور باہر، ہر جانب تھا۔ تخلیقی وجدان کے سمندر کی گہرائی اور گیرائی کا احاطہ انسان کے بس سے باہر ہے۔ سو تخلیقی وجد میں ڈوبے ہوئے جون ایلیا شعروادب کے معاملے میں پُر گو ہونے کے باوجود زندگی بھر رائیگانی کے احساس میں رہے۔ ”کیسے میں بھر لاؤں مدھوا سے مٹکی“۔ ذاتی دائرے سے باہر، انسانی معاشرے کے مجموعی رویوں کا ملال بھی اُن کے یہاں کچھ ایسا ہی ہے :

ایک ہی حادثہ تو ہے، اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی۔

بات سننے، کرنے اور کہنے سے پہلے سوچنے کا عمل جیسے بیالوجی میں، کوئی spontaneous generation جیسی چیز نہیں ہے۔ اس کے لئے شعور کو فکر کی تربیت چاہیے۔ سوچ اور فکر کے باب میں یاد رہے کہ 800 سال قبل ازمسیح سے 200 سال ق۔ م تک کا زمانہAxial Age کہلاتا ہے کیو نکہ اُس زمانے میں چار دانگ عالم سے فکر و دانش کی بہت سی تحریکیں شروع ہوئیں۔ علماء تو یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ قومیں جنہوں نے ایکسیل ایج میں اپنا فکری حصہ نہیں ڈالا، وقت نے انہیں نیست و نابود کر ڈالا ہے۔

اُس زمانے کا مطالعہ دراصل نوع انساں کے فکری ارتقاء کو سمجھنے کے لئے نہا یت ضروری ہے۔ یہ وہی زمانہ ہے جب خدائے واحد کے نظریے نے جڑ پکڑی، ہندوستان میں بدھ مت کی روشنی پھیلی، چین میں حضرت کنفیو شس اور یورپ میں ریشنلزم جنم لیتا ہے جس کے بانی مبانی سقراط علیہ السلام مانے جاتے ہیں۔ تاہم اسی زمانے میں یونان سے فلسفیوں کا ایک اور گروہ اٹھا جو ”سوفسٹ کہلاتا ہے۔ یہ لوگ خاص طور سے علم البیان کے پرچارک تھے اور اس کی ترویج میں ان کا بڑا کام اور مقام ہے۔

جون ایلیا نے جہاں مشرقی علوم اور مغربی فلسفے کی تعلیم حاصل کی وہیں سوفسٹ سکول سے بھی کسبِ فیض کیا بلکہ ان کے طرزِ استدلال کو جا جا استعمال بھی کیا۔ کہا جاتا ہے کہ معنی، لفظ کا خالق ہے۔ جون ایلیا کے اندر کا سوفسٹ اس نقطئہ نظر کو کس طرح چیلنج کرتا ہے :

ہاں لفظ ا یجاد ہیں
یہ ہزاروں، ہزاروں برس کے
سراسیمہ گر اجتہادِ تکلم کا انعام ہیں
ان کے انساب ہیں
اور پھر ان کی تاریخ ہے
اور معنی کی تاریخ کوئی نہیں۔

جون صاحب سوفسٹ ہونے کے ناطے فرماتے کہ معنی کا نہ کوئی حسب نسب ہے اور نہ ہی اس کی کوئی تاریخ ہے۔ اس جگہ میں نے یہ مثال اس وجہ سے پیش نہیں کی کہ کسی طور معنی کا نسب نامہ اونچا کروں۔ میرا مطمع نظر ایک ”لٹریری الّوین“ Illusion کو واضح کرنا ہے اور جون ایلیا کے کمالِ بیان کا اعتراف کرنا ہے کہ وہ کس طرح سے لفظ کے ساتھ با ز یگری کر سکتے ہیں۔ کسی دوسری جگہ کہتے ہیں :

وہ خجستہ وہ خوش ماجرا روز و شب
روز و شب ہی نہ تھے
اک زمانِ الوہی کا انعامِ جاری تھے
اور ایک رمزِ ہمیشہ کا
سر چشمۂ جاوداں تھے
وہ سر چشمۂ جاوداں جس کی تاثیر سے
اپنا احساسِ ذات ایک الہام تھا
جس سے روحِ د ر و بام سرشار تھی
اُس فضا میں کوئی شے فقط شے نہ تھی
ایک معنی تھی
معنی کا فیضان تھی

ان مثالوں کے بعد اب ہم پھر سے لفظ اور معنی کے رشتے کی طرف واپس لوٹتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لفظوں کے حسب نسب کا کھوج نکالنے والے محققین نے لغات کی جلدوں پر جلدیں مرتب کر دیں ہیں۔ معنی کو اس طرح کے تحقیق دان میسر نہیں آئے مگر خوش قسمتی سے معنی حصے میں تخلیق کار آئے ہیں جو Libido یعنی زندگی کی رگوں میں دوڑنے والی لائف فورس کی کشیدہ کاری کرتے چلے آئیں ہیں اور کرتے رہیں گے۔ زندگی خود سے ایک معنی ہے، زندگی کا شعور ایک معنی ہے۔

معنی موسیقی ہے۔ معنی موسیقی کی راگنی کے بیچوں بیچ بنا ہوا خامشی کا وقفہ ہے، جس پر سُر قربان ہو ہو جا تا ہے۔ اِسے کہیں اور سے ”ہونے“ کی سند لینے کی ضرورت نہیں۔ بس یہی رویہ اور یہی اندازِ فکر Existentialism جس میں Ontos یا وجود اور شعور کے ”ہونے“ کے اندر معنی کا موج د ر موج بہتا دریا ہے۔ لفظ اگر معنی سے pregnant نہ ہو تو یہ بہت بنجر اور بے جان چیز ہے۔ لفظ کے امکان کا جوہر معنی میں مزمر ہے جو عہد نامہء قدیم میں Genesis یعنی ”سورہ پیدائش“ میں ہے اور یہی قرآن کا ”کُن فیکون“ ہے۔

مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ جون ایلیا نطشے کے uberman سے کسی طور متاثر تھے یا نہیں مگر یقیناَ کسی نہ کسی سطح پر وہ انسان کے اجتمائی امکانات کے متمنی ضرور تھے۔ ان کے نزدیک انسان کا مجموعی امکان گردشِ دوراں کی چکی میں پسے جانے کے باوجود ققنس Phoenix پرندے سے مطابقت رکھتا ہے جو زندہ ہو کر مرتا ہے اور مر مر کر زندہ ہوتا ہے۔ نظم ”فونیس“ کی چند لا ئینیں ملا حظہ ہوں :

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2