بچوں کی اچھی تربیت کیسے کریں


اگر آپ اور آپ کا بچہ دونوں ہی اپنی بات منوانے کے لئے ضد پر اڑ جاتے ہیں تو آپ میں اور اس بچے میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ آپ کو یہ شکایات رہتی ہیں کہ ہر بار آپ کا بچہ کسی نہ کسی طرح سے اپنی بات منوا ہی لیتا ہے۔ ، آپ کا بچہ اُس وقت آپ کی بات کو نظرانداز کر دیتا ہے جب آپ اُسے کوئی ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے وہ کرنا نہیں چاہتا اور جب آپ بچے کو کسی کام سے منع کرتے ہیں تو وہ غصے میں رونا پیٹنا شروع کر دیتا ہے۔ ۔

شاید آپ یہ سوچتے ہوں کہ اس عمر میں تو بچے ایسا کرتے ہی ہیں ابھی نادان ہے، بڑا ہوکر ٹھیک ہوجائے گا مگر ایسا نہیں ہے۔ بچپن میں پڑنے والی عادات بچے کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں اور عمر بھر رہتی ہیں۔ آپ چھوٹے بچوں کو کہنا ماننا سکھا سکتے ہیں۔ آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ بچوں کے کہنا نہ ماننے کی وجہ کیا ہے۔ ‏

جب آپ کا بچہ پیدا ہوا تھا تو اُس کی دیکھ ‌بھال کرنا گویا آپ کی زندگی کا مقصد بن گیا تھا۔ ‏ آپ ہر وقت اُس کی خدمت کرنے کے لیے حاضر رہتے تھے۔ جیسے ہی وہ روتا تھا، ‏ آپ بھاگے بھاگے اُس کی ہر ضرورت کو پورا کرتے تھے۔ چونکہ ننھا بچہ اپنے لیے کوئی کام نہیں کر سکتا اِس لیے یہ مناسب ہے کہ والدین اُس کے لاڈ اُٹھائیں۔ بِلاشُبہ ننھے بچے کو اپنے والدین کی توجہ کی مسلسل ضرورت ہوتی ہے۔ ‏

چونکہ والدین اپنے ننھے بچے کے ناز نخرے اُٹھاتے ہیں اِس لیے بچے کو لگتا ہے کہ وہ گھر کا مالک ہے اور اُس کے والدین کی زندگی کا مقصد بس اُس کی خدمت کرنا ہے۔ لیکن پھر دو سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے بچے کو لگتا ہے کہ اُس کا تختہ اُلٹ دیا گیا ہے۔ اب والدین کو اُس کا نہیں بلکہ اُسے والدین کا کہنا ماننا چاہیے۔ یہ بات بچے کے لیے بہت بڑا دھچکا ثابت ہوتی ہے۔ کچھ بچے تو اِس وجہ سے بات بات پر غصہ کرنے لگتے ہیں اور کچھ تو اپنے ماں باپ کی بات سننے سے ہی اِنکار کر دیتے ہیں۔ ‏

اِس صبر آزما گھڑی میں والدین کو ایک نیا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اُنہیں اپنے اِختیار کو عمل میں لاتے ہوئے بچے پر واضح کرنا چاہیے کہ وہ اُس سے کیا توقع کرتے ہیں۔ ‏لیکن اہمارے یہاں جو ایک بہت بڑا مسئلہ پایا جاتا ہے کہ اگر بچہ آپ کے اختیار اور حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتا تو آپ کو کیا کرنا چاہیے؟

آپ کا بچہ اُسی صورت میں آپ کا کہنا مانے گا اگر آپ اُس پر واضح کریں گے کہ اِختیار آپ کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا پیار سے اپنے اِختیار کو اِستعمال کریں۔ لیکن اگر آپ اپنے اِختیار کو اِستعمال نہیں کرتے اور بچے کو ڈھیل دیتے ہیں تو بچہ اُلجھن میں پڑ سکتا ہے، ‏ بگڑ سکتا ہے اور یہ سوچ سکتا ہے کہ وہ ہر بات میں اپنی من‌ مانی کر سکتا ہے۔ اور اِس طرح بچہ بڑا ہو کر ایک ذمے دار شخص ہرگز نہیں بنے گا۔

بچے کی ہر ممکن اصلاح کریں، اصلاح تربیت کا ایک ایسا خوبصورت جُز ہے جس میں بچہ فرمانبرداری کرنا اور خود میں ضبط نفس پیدا کرنا سیکھتا ہے۔ یہ تربیت اکثر قوانین کی صورت میں دی جاتی ہے جنہیں توڑنے پر سزا ملتی ہے۔ بے شک والدین کو بچوں پر کبھی بھی ظلم نہیں کرنا چاہیے مگر اِس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ والدین بچے کی اِصلاح اِس طرح کریں کہ اُسے اپنی غلطی کا احساس ہی نہ ہو۔ ‏ بچے پر یہ واضح ہونا چاہیے کہ اگر وہ غلطی کرے گا تو اُسے اِس کے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ یوں اُسے خود میں تبدیلی لانے کی ترغیب ملے گی۔ ‏

بچے کو ہمیشہ واضح ہدایات دیں، بعض والدین اپنے بچوں سے صرف درخواست کرتے ہیں کہ وہ اُن کا کہنا مانیں، ‏ مثلاً ”‏اگر آپ چاہیں تو مہربانی سے اپنے کمرے کو صاف کریں۔ ‏“ ‏ یا ”کیا آپ پانی کی بوتلیں بھریں گے؟ “ اور پھر یہ عادت تمام عمر قائم رہتی ہے یہاں تک یہ بچے کے جوان ہوجانے پر بھی ماں اپنے اسی ازلی کمزور انداز میں بیٹی کو گویا ”صلاح“ مارتی ہے کہ ”آج تم کھانا بنا لو گی؟ “

شاید والدین سوچیں کہ اِس طرح سے بات کرنے سے وہ خوش ‌اخلاقی ظاہر کر رہے ہیں۔ لیکن ایسا کرنے سے بچوں کی نظر میں والدین کے اِختیار کی اہمیت کم ہو سکتی ہے۔ اِس کے علاوہ اُنہیں یہ فیصلہ کرنے کی کُھلی چھٹی بھی مل جاتی ہے کہ آیا وہ اپنے ماں باپ کی درخواست پر عمل کریں گے یا نہیں۔ لہٰذا اپنے اِختیار سے دست بردار ہونے کی بجائے بچوں کو صاف سیدھے لفظوں میں ہدایات دیں۔ ‏

اچھی تربیت کے لیے بیحد ضروری ہے کہ والدین اپنی بات کے پکے ہوں۔ آپ کا لہجہ مضبوط اور حتمی ہونا چاہیے۔ اگر آپ کسی بات کے لیے نہ کہتے ہیں تو اپنی بات پر قائم رہیں۔ اپنے جیون ساتھی کے ساتھ پہلے سے بات کریں کہ آپ بچے سے کیا کہیں گے اور پھر ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ اگر آپ بچے کو بتاتے ہیں کہ فلاں کام کرنے پر اُسے سزا ملے گی تو اپنی بات کو پورا کریں۔ بچے کو بحث نہ کرنے دیں اور نہ ہی لمبی چوڑی وضاحت کریں کہ آپ نے ایک فیصلہ کیوں کِیا ہے۔ اگر آپ ”‏ہاں کی جگہ ہاں۔ ‏ اور نہیں کی جگہ نہیں“ ‏ کہیں گے تو آپ اور آپ کے بچے دونوں کے لیے آسانی ہوگی۔ ‏

بچوں سے پیار سے پیش آئیں کیونکہ جو کام تلوار سے نہیں ہوسکتا وہ پیار سے ممکن ہے۔ بچوں کے لیے ان کے روزمرہ کے کاموں میں جدت اور نیا پن لے کر آئیں تا کہ انہیں بوریت اور بیزاری محسوس نا ہو۔ انہیں کم عمری سے ہی وقت کی پاندی اور اہمیت سے روشناس کروائیں۔ اور یاد رہے کہ بچے وہی کرتے ہیں جو وہ اپنے ماحول سے سیکھتے اور دیکھتے ہیں اور اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ آپ انہیں ایک پرسکون اور قابل تقلید ماحول فراہم کریں۔ جو کام آپ اپنے بچے سے کروانا چاہتے ہیں پہلے وہ آپ کو خود عمی طور پر اسے کر کے دکھانا ہوگا تا کہ اس کے سامنے آپ کی مثال موجود ہو۔ دنیا کی کوئی یونیورسٹی انسان کو وہ سبق نہیں سکھا سکتی جو اسے اس کی ماں سکھاتی ہے شاید اسی لیے ماں کی گود کو پہلی درسگاہ کہا جاتا ہے۔

اپنے بچے کو مناسب وقت دیں۔ نا تو ہمہ وقت اس کی چوکیداری پرمعمور رہیں کہ اسے گھٹن محسوس ہو اور نا ہی بالکل بے پرواہ ہوجائیں البتہ مناسب نگرانی ضروری ہے۔ دن میں کم از کم ایک بار اس کے ساتھ ایک ایسی نشست ضرور رکھیں جس میں اس سے اس کے دن بھر کا احوال لیں۔ کچھ اپنی کہیں کچھ اس کی سنہیں۔ بچے سے مضبوط اور مربوط تعلق بنائیں تاکہ وہ کسی غلط ہاتھوں میں جانے کے بجائے اپنی ہر پریشانی آپ سے کہے کیونکہ اس کے لیے آپ سے زیادہ مخلص کوئی نہیں ہے۔

بحیثیت مسلمان ہم وہ خوش نصیب لوگ ہیں جنہیں خدا نے خاندانی اقدار سے نوازا ہے اور خاندان ایک ایسا اِنتظام نہیں جس میں ہر معاملے میں بچے کی رائے لی جائے اور نہ ہی یہ ایک ایسا اِنتظام ہے جس میں بچے کی رائے بالکل نہ لی جائے۔ اِس کی بجائے یہ خدا کی طرف سے ایک ایسا بندوبست ہے جس کے تحت والدین اپنے بچوں کی پیار سے تربیت کرتے ہیں تاکہ وہ اچھی شخصیت کے مالک بنیں۔ یقین مانیں، ‏ جب آپ اپنے بچوں کی اِصلاح کریں گے تو وہ فرمانبرداری سیکھیں گے اور آپ کی بانہوں میں تحفظ محسوس کریں گے۔ ‏

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).