جھوٹ بولو ورنہ پوچھا جائے گا کہ تم کون ہو!


پاکستان میں نئی روایات قائم کرنے کا موسم ہے۔ دو روز قبل سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سرکردگی میں ایک بنچ نے لاہور ہیلتھ کئیر کمیشن کی ساخت کے حوالے سے سو موٹونوٹس کےمعاملہ کو نمٹاتے ہوئےساری زندگی سچ بولنے اور آئین پاکستان کے تحت شہریوں کے حقوق اور آزادی رائے کی حفاظت کرنے والے بزرگ صحافی اور انسان دوست حسین نقی کے ساتھ جو لب و لہجہ اختیار کیا ، وہ ملک کی تاریخ میں ایک نئی روایت کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ روایت راسخ ہوگئی تو جھوٹ کا بول بالا ہوگا اور سچ کی آواز سننے کے لئے کان ترسنے لگیں گے۔ ہر ماں اپنے بچے کو یہ سبق سکھانے پر مجبور ہوگی کہ اگر تم نے سچ بولتے ہوئے فاقہ مستی میں دن گزار دئیے تو سفر کے آخر میں کوئی مغرور شخص ضرور پوچھے گا کہ تم کون ہو کہ اونچی آواز میں بولتے ہو، درست اور غلط کا معیار مقرر کرنے کی کوشش کرتے ہو اور گستاخی کرتے ہو۔ اور اگر ایسا شخص کسی ذمہ دار منصب پر براجمان ہو گیا تو وہ اپنی ترنگ میں یہ انتباہ بھی دے سکتا ہے کہ کیوں نہ تمہیں قید کردیا جائے۔ پیاری ماں اپنے بچے سے محبت کے جوش میں یہی سبق سکھائے گی کہ ایسے سچ سے توبہ بھلی جو ساری زندگی کی قربانیوں کو اکارت کردے ۔ سو اے میرے پیارے بچے جھوٹ بولنا سیکھ کہ زمانہ جھوٹے کی عزت کرتا ہے اور اسے سر پہ بٹھاتا ہے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس مختصر سی سماعت میں پاکستان کی معلوم تاریخ میں اسی آئین کے تحفظ کی جدوجہد کرنے کی پاداش میں صعوبتیں برداشت کرنے والے حسین نقی کو بے نام کرنے کی حسرت ناک کوشش کی ہے۔ موجودہ چیف جسٹس سمیت اس ملک کے درجنوں جج بھی وقت آنے پر اس دستور کی حفاظت کا بیڑا اٹھانے میں ناکام رہے تھے۔ محترم چیف جسٹس آج کل غصے میں رہتے ہیں۔ کمرہ عدالت کے در ودیوار ان کے جلال سے کانپ رہے ہوتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ آئین کے پاسدار ہیں لیکن انہیں یہ خبر نہیں کہ جس آئین کی حفاظت کا حلف اٹھا کر وہ اس سے کنی کترانے پر مجبور ہو چکے ہیں اور ملک کے سب شہریوں کو جس آئین کے سامنے مساوی قرار دینے کا دعویٰ کرتے ہیں، عام شہری کی نظر میں اگر اس آئین کی قدر و قیمت موجود ہے تو وہ حسین نقی جیسے مٹھی بھر لوگوں کی جرات و حوصلہ اور قربانیوں ہی کی بدولت ہے۔ جنہوں نے دنیاوی سہولتوں اور ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر ہر آمر و جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے کا حوصلہ کیا۔

ہفتہ کے روز چیف جسٹس نے حسین نقی کو معافی مانگنے پر مجبور کرنے کے بعد انہیں عدالت سے نکالنے کا حکم صادر کیا۔ حسین نقی کی یہ معافی اعتراف شکست نہیں ہے بلکہ اس بات کا اعلان ہے کہ پچاسی برس کی عمر میں جب قویٰ جواب دے جاتے ہیں، جب دوسروں کے حقوق کی بات کرنے کی بجائے اپنی تکلیفوں کو رفع کرنے کی خواہش حاوی ہوتی ہے اور جب عزت و احترام اور فائدہ و نقصان غیر اہم ہوجاتے ہیں تو انہوں نے چیف جسٹس کے حکم پر معافی مانگ کر عدالت عظمی کے اس وقار میں اضافہ کیا ہے جسے کچھ افراد اپنی غیرذمہ داری سے بے وقعت کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔ یہ طاقت کا نشہ ہے، یہ نظام کو لپیٹنے کا مشن ہے، ناشکری کا یہ اظہار ہے دراصل کیا ہے۔ اس کا جواب شاید عزت مآب چیف جسٹس پر ادھار ہو چکا ہے۔ انہیں فکر ہونی چاہئے کہ کیا وہ یہ قرض چکانے کے قابل ہیں۔

حسین نقی کی عدالت سے معافی کے بعد انہیں عدالت سے باہر نکالنے کا حکم دے کر چیف جسٹس نے واضح کیا ہے کہ وقت اور حادثات بعض اوقات کسی انسان کو اس کے ظرف سے زیادہ اختیار عطا کردیتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ سے دو ماہ پہلے ثاقب نثار نے اپنے دامن پر یہ داغ لگا کر کسی کے ساتھ نہیں، خود اپنے ساتھ ظلم کیا ہے۔ اب بطور وکیل اور جج ان کی ساری زندگی کے کارنامے مل کر بھی اس ایک ظلم کا جواب دینے کے قابل نہیں ہیں جو انہوں نے اس قوم کی محسن شخصیت کے ساتھ برتتے ہوئے روا رکھا ہے۔ حسین نقی جب آئین کی دہائی دیتا ہے، انصاف کی بات کرتا ہے، آمروں کی شان و شوکت کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے یا منتخب حکمرانوں کی گمراہی کو برداشت نہیں کرتا تو وہ کسی عہدے، پلاٹ یا رعایت کا متمنی نہیں ہوتا۔ اس نے انسانوں کے لئے کی گئی اس جدوجہد میں کوئی ذاتی مفاد حاصل نہیں کیا بلکہ کسمپسری کی ایسی زندگی بسر کی ہے کہ اس ملک کا کوئی جج اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اور جس کام کے لئے اس نے ان حالات کو سینے سے لگایا، وہ اسی عدالت کے کرنے کا تھا جس کے ایک ایوان میں جسٹس ثاقب نثار ،حسین نقی کو دھتکارنے کو کوشش کررہے تھے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نظام عدل و انصاف کے ایسے محسن سے بدتہذیبی کرنا درست اور جائز سمجھتے ہیں تو انہیں یہ جواب تو دینا پڑے گا کہ جو شخص آپ کے پیشروؤں کا نامکمل کام پورا کرنے کا حوصلہ کرتا رہا۔ اور جس نے آپ کے اصرار پر عدالت کو بے وقعت کرنے کی بجائے تمام تر زیادتی کے باوصف معافی مانگ لی، اس کا احسان آپ کیوں کر چکا سکیں گے۔ کیا انہیں اپنا مؤقف پیش کئے بغیر کمرہ عدالت سے زبردستی باہر لے جانے کا حکم دے کر یہ احسان اتارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کیا چیف جسٹس کی بلند کرسی کسی دماغ میں اس قدر طنازی بھی بھر سکتی ہے کہ اسے قوم کے ان محسنوں کا نام بھی یاد نہیں رہتا جنہوں نے ملک کی آئینی اساس اور جمہوری ڈھانچے کو بچانے کے لئے ہر باد مخالف کےسامنے ستر برس سے چراغ روشن کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔

اس تحریر سے محترم عدالت کی توہین مطلوب نہیں ہے۔ یہ کام کچھ دوسرے لوگ بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس راستے کے رہنما حسین نقی جیسے دیو قامت نے بھی عدالت کا احترام ملحوظ رکھنے کی روایت کو قائم رکھنے کا سبق تازہ کیا ہے تاکہ ان اداروں کا تقدس بحال رہے جو بے بس و بے کس شہری کی آخری امید ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ جب حسین نقی عدالت عظمی میں یہ الفاظ ادا کررہے تھے کہ ’میں عدالت سے معافی مانگتا ہوں‘ تو یہ لفظ ہماری تاریخ پر تازیانہ تھے ۔ چیف جسٹس کو جاننا چاہیے کہ یہ تازیانہ کس پر ارزاں ہوا ہے۔ وہ اس ملک کے گلے سڑے نظام کا چہرہ تھا، انصاف کی بے توقیر مورت کی صورت تھی یا کسی ایسے ماہر قانون کا رخ انور تھا جسے انصاف کے معنی از سر نو یاد کرنے کی ضرورت ہے۔

چیف جسٹس کو اس سانحہ کے بعد اس بات کا جواب بھی دینا ہے کہ اگر اس ملک کا ہر شہری قانون و آئین کا پابند ہے تو کیا عدالتوں کے جج اور سابقہ جج اس سے مستثنی ہیں؟ کیا کسی جج کو مسند انصاف پر بیٹھ کر بدتمیزی کرنے اور ذاتی مباحث میں الجھنے کا قانونی اور اخلاقی اختیار حاصل ہوجاتاہے؟ حسین نقی تو ایک فرد کی بجائے ادارہ کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں جو کسی بھی زندہ قوم کا سرمایہ اور وجہ افتخار ہوتے ہیں۔ لیکن کیا سپریم کورٹ کے جج اور چیف جسٹس کو کسی بھی شخص اور جب وہ فرد 85 برس کا عمررسیدہ بزرگ ہو، کے ساتھ اونچی آواز میں کسی دلیل اور عذر کے بغیر بات کرنے کا حق و اختیار حاصل ہے۔ اور جو منصف یہ امتیاز نہ کر سکے کہ کمرہ عدالت میں اسے سب کو احترام دینا ہے تاکہ معاشرہ میں بات سننے اور دلیل کی بنیاد پر اسے ماننے یا مسترد کرنے کا چلن عام ہوسکے، تو اس کے بارے مین تاریخ کا فیصلہ کیا ہو گا؟

چیف جسٹس ثاقب نثار کو ہفتہ کے روز رونما ہونے والے سانحہ کے بارے میں سوچنا چاہئےکہ ان کے رویے سے اس پروقار عدالت کی توہین ہوئی ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار دو ماہ بعد اس عہدے پر فائز نہیں رہیں گے جس کی دستوری طاقت کی مدد سے وہ ملک کی جمہوری روایت، تمدنی اقدار اور شہری حقوق پر ہلغار کر رہے ہیں۔ انہیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری سے رابطہ کر کے معلوم کرنا چاہیے کہ جب عوام کے اعتماد اور بھروسہ کو نقصان پہنچایا جائے تو مقبولیت کا غبار مسند سے اترتے ہی ساتھ چھوڑدیتا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ سال دو سال ، دس بیس برس بعد ہی نہیں بلکہ پچاس سو برس بعد بھی جب جب اس ملک میں انصاف، اور انسانوں کی بات ہوگی تو حسین نقی کا نام احترام سے لیا جائے گا۔ اس ملک کے شہریوں کے حقوق پامال کرنے والوں کا نام حقارت سے لیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali