حسین نقی کا اصل جرم


جو معاشرہ سوچ، فکر اور قلم والوں کا احترام نہیں کرتا وہ ڈنڈوں، بندوقوں اور گالیوں والوں سے ڈرتا ہے۔ میں اپنے معاشرے کو جانتا ہوں لہذا مجھے حسین نقی صاحب کی’عزت افزائی‘ پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ مجھے جناب عطا الحق قاسمی کے بارے فیصلے پر بھی حیرانی نہیں ہوئی تھی کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس دور میں قانون کی منشا کیا ہے۔ میری ریاست میں قانون طاقت ور کے مفادات اور خواہشات کا نام ہے اور موجودہ قانون یہ ہے کہ ہر اس شخص کو سزا دی جائے جو اناؤں، ارادوں اور خواہشات کے سامنے کھڑا ہے۔ جناب حسین نقی کا جرم یہ نہیں کہ وہ کسی بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اعزازی رکن تھے بلکہ ان کا جرم یہ ہے کہ وہ اس خوشامدی گروہ میں نہیں جو قانون کی طاقت کی بجائے طاقت کے قانون کا حامی ہے۔ قوموں کے رویے ایک دن میں نہیں بنتے بلکہ اس میں عمومی طور پر عشرے اور بعض اوقات صدیاں لگ جاتی ہیں اور ہم نے اپنے ذہنوں میں راسخ کر لیا ہے کہ قانون کی کوئی طاقت نہیں ہے اور طاقت کے علاوہ کوئی دوسرا قانون نہیں ہے۔

حسین نقی صاحب کا جرم ان کی تربیت ہے، ان کا پیشہ ہے، ان کی طینت ہے جو انہیں طاقت کے سامنے سرنڈر کرنے کی بجائے اصولوں کی پاسداری سکھاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ نہ ایوب خان کے سامنے سرنڈر کرتے ہیں اور نہ ہی ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے، وہ ضیاءالحق کے سامنے سر جھکاتے ہیں اورنہ ہی پرویزمشرف کے سامنے بلکہ وہ ہمیں آصف علی زرداری اور نواز شریف کے سامنے بھی کھڑے نظر آتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست نے تبصرہ کیا کہ ایک صحافی کا کسی بھی ادارے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں کیا کام ہے۔ نصابی کتب کی سطح پر یہ سوال بالکل جائز اور درست ہے مگر دوسری طرف سوال یہ بھی ہے کہ ایک سرکاری ملازم، ایک تاجر یا اسی قسم کے ایرے غیرے نتھو خیرے قومی اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ہو سکتے ہیں مگر ایک صحافی، ایک قلم کار اور ایک دانشور پر اس کی پابندی ہے۔

یہ بالکل ایسی ہی صورتحال ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ ایک صحافی کو غیر جانبداری کے اصول کے تحت رائے نہیں دینی چاہیے اور یہاں بھی سوال یہی ہے کہ ایک میٹرک پاس دکاندار رائے دے سکتا ہے مگر حقیقت جاننے والے صحافی کو یہ حق حاصل نہیں اور اگر کوئی صحافی اپنے وژن اور تجربے سے کسی بھی شعبے میں قوم کی خدمت کر سکتا ہے تو اسے ہرگز اس بارے نہیں سوچناچاہئے۔ ایک حاضر سروس یا ریٹائرڈ جج قانون کے مطابق کسی بورڈ آف ڈائریکٹرز کا رکن ہو سکتا ہے یا کسی محکمے کا سربراہ ہو سکتا ہے مگر صحافی نہیں حالانکہ جج پر غیر جانبداری صحافی سے بھی کہیں زیادہ لازم ہے۔

حسین نقی کو اسی طرح عدالت کا سامنا کرنا پڑا جس طرح بہت سوں کو کرنا پڑ رہا ہے یعنی وہ اپنا مقدمہ پیش کرنے کے حق سے محروم ہو ئے۔ انہیں یہ سننا پڑا کہ تم کون ہو۔ عدالتی رپورٹروں سے پوچھا جائے تو علم ہوتا ہے کہ عدالت اپنا ذہن بنا کے آتی ہے کہ اس نے کیا فیصلہ کرنا ہے اور یہ معاملہ واحد حسین نقی صاحب کو درپیش نہیں ہوا۔ یہاں تک ہوا کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے تمام سٹیک ہولڈرز کو سنے بغیر ہی بہت سارے معاملات میں حکم جاری کر دئیے۔ میں نے کہا کہ ہم اپنی روایات دنوں اور مہینوں میں نہیں بلکہ برسوں ،عشروں اور صدیوں میں بناتے ہیں اور ہماری چھ، سات عشروں کی روایات ہمیں بتاتی ہیں کہ ہمارے فیصلے آئین اور قانون کے تابع نہیں ہوتے بلکہ فیصلوں کے ذریعے نئے قوانین اور نئی روایات بنائی جاتی ہیں اور پھر وہ قوانین اور روایات پورے معاشرے پر مسلط ہوجاتے ہیں۔ ایسے بنائے ہوئے قوانین کے تحت مارشل لاوں کو جواز دیا جاتا ہے تو پورے معاشرے میں، ہر ادارے میں، چھوٹے چھوٹے مارشل لا لگ جاتے ہیں۔ جب ایوب خانوں، ضیاءالحقوں اور پرویز مشرفوں کو جائزیت عطا ہوتی ہے تو پھر ہر شعبے میں کہیں چھوٹے اور کہیں بڑے ایوب خان، ضیا ءالحق اور پرویز مشرف پیدا ہوجاتے ہیں۔

عطاءالحق قاسمی جیسے تاریخ اور روایت ساز قلم کاروں اور حسین نقی جیسے بزرگ صحافیوں کے ساتھ مفاد یا رائے کے اختلاف پر یہ سلوک ایک مائنڈ سیٹ ہے، ہم ان کے خلاف پروپیگنڈوں، کردار کشی اور تذلیل کو جائز سمجھتے ہیں کیونکہ وہ فیصل واوڈا اور بابر اعوان نہیں ہیں۔ حسین نقی صاحب تبدیلی کے حامی ہونے کے باوجود ایک وسیع مکتبہ فکر کے حصہ ہونے کی وجہ سے اس صورتحال کا شکار ہوئے۔ ایک راستہ یہ ہے کہ ہمیں آئیں بائیں شائیں کئے بغیر تسلیم کرنا پڑے گا کہ طاقت ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا قانون ہے۔ ہمیں طاقت کو عزت دینی ہو گی اور اس کے سامنے جھکنا، اسے ہی سلام کرنا ہو گا اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو سروں سے پگڑی تو اتر ہی سکتی ہے بلکہ گردن کے بارے میں بھی کچھ زیادہ خوش امید رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ طاقت کے قانون کے احترام کی زنجیر میں کڑیوں سے کڑیاں جڑتی ہوتی ہیں اور ایک طاقت ور کڑی دوسری کڑی کو طاقت ور بناتی ہے اور یوں پورا معاشرہ ایک مضبوط زنجیر میں بندھ جاتا ہے۔

مجھے وہ فقرہ دہرانے دیجئے کہ ہم ہزار روپے کا جوتا جتنا سستا سمجھتے ہیں ہزار روپے کی کتاب اتنی ہی مہنگی، ایسے میں اگر ہماری قسمت میں جوتے ہیں تو ان کا انتخاب ہم نے سستا اور موزوں جان کیا ہے۔ میں نہیں جانتاکہ ہم اپنے اس مائنڈ سیٹ کو کب اور کیسے تبدیل کر سکتے ہیں مگر ہمارے پاس دوسرا راستہ یہی ہے جس پر مہذب دنیا چل رہی ہے۔ ہمیں عطا الحق قاسمیو ں اور حسین نقیوں کو عزت دینی ہے ورنہ ہم ہمیشہ بندوقوں، ہتھوڑوں اور گالیوں کو ہی قانون سمجھتے رہیں گے۔ حسین نقی کا اصل جرم یہ ہے کہ وہ اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں اختیار اور طاقت ہی کو قانون سمجھا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).