’مخدوش بیٹنگ، مہیب سائے اور لامحدود جارحیت‘


اظہر علی

یہی ابوظہبی کا گراونڈ تھا۔ کچھ ایسی ہی کنڈیشنز تھیں۔ ہدف اس سے بھی کہیں کم تھا، اتنا کم کہ ایک مبصر تو ٹی وی پہ یہاں تک کہہ گئے کہ اوپنر ہی کر جائیں تو بہتر ہے ورنہ اظہر علی آ جائیں گے، سست کھیلیں گے اور پاکستان مشکل میں پھنس جائے گا۔

اور پھر کچھ ایسا ہی ہوا۔ اوپنرز بھی آئے اور کرنے کی کوشش کی، نہ ہو پایا۔ پھر اظہر علی بھی آ گئے، نہ ہوا۔ پھر یکے بعد دیگرے حارث سہیل، بابر اعظم، اسد شفیق اور سرفراز احمد سبھی آتے گئے مگر ہیراتھ کے سامنے کسی کی نہ چلی۔ اور 136 کا تعاقب کرتے کرتے پاکستان 21 رنز سے میچ ہار گیا۔

خیر، وہاں تو ٹیسٹ کرکٹ کے کامیاب ترین لیفٹ آرم بولر رنگنا ہیراتھ سامنے تھے۔ خزاں رسیدہ پتوں کی طرح وکٹوں کو جھڑنا ہی تھا۔

مگر یہاں تو کوئی رنگنا ہیراتھ بھی نہیں تھے۔ دو عام سے سپنرز تھے اور ان میں سے بھی ایک اپنا پہلا میچ کھیل رہا تھا۔ اگرچہ یاسر شاہ کی پانچ وکٹیں یہ ثابت کرنے کو کافی تھیں کہ یہ وکٹ کس قدر سست ہو چلی ہے۔ مگر پھر بھی کہاں یاسر شاہ اور کہاں اش سودھی؟

یہ بھی پڑھیئے

یہ چوتھی اننگز کا بُھوت کیا ہوتا ہے؟

ابوظہبی ٹیسٹ میں نیوزی لینڈ کی چار رنز سے جیت

نیوزی لینڈ 56 رنز، ایک کھلاڑی آؤٹ

یہاں صرف اور صرف ایک ہی خدشہ تھا کہ جوں ہی گیند پرانا ہو گا، بلے پہ ٹھیک سے نہیں آئے گا۔ سکور کرنا دشوار تر ہوتا جائے گا اور قلیل سا ہدف بھی پہاڑ بننے لگے گا۔

لیکن پھر بھی وکٹ میں کوئی ایسے بھوت نہیں تھے کہ اندھیری راتوں کے مہیب سائے بن جاتے۔ بس ذرا صبر کرنا تھا، وکٹ پہ رکنا تھا اور دھیرے دھیرے سرکتے ہدف تک پہنچنا تھا۔ یہاں تحمل کا کام تھا، جارحیت کا نہیں۔

کل شام جب یہی عرض کیا تھا کہ ہدف تو کچھ بھی نہیں ہے مگر حواس مجتمع رکھنا ضروری ہو گا، تو شائقین خاصے نالاں ہوئے کہ ایسی بھی کیا بے اعتباری ہے اس بیٹنگ لائن پہ جو خدشات کو اس قدر تقویت دی جا رہی ہے۔

کسی نے خوب کہا تھا کہ اگر آپ گیم سے آگے نکلنے کی کوشش کریں تو پھر گیم بھی اپنے طریقے سے پلٹ کر آپ کو مات کر سکتی ہے۔ چوتھے دن کی ابوظہبی کی وکٹ، پرانا گیند اور گرتی وکٹوں کی قطار ۔۔۔۔ مگر مجال ہے کہ صبر اور سکون کا گزر بھی رہا ہو۔

اعجاز پیٹیل

سراسیمگی ایسے طاری ہوئی کہ جیسے وکٹ پہ کسی آسیب کا سایہ ہو گیا ہے۔ گمان ہوتا تھا کہ کوئی پانچ منٹ سے زیادہ وکٹ پہ رک گیا تو شاید جرمانہ ہو جائے گا۔

پاکستان کی اس ٹیسٹ ٹیم کی سب سے بڑی قوت اس کا بولنگ اٹیک ہے جس کے سرخیل محمد عباس اور یاسر شاہ ہیں۔ دیگر بھی جتنے بولرز کو موقع دیا گیا، سبھی نے اپنی اپنی وقعت یوں ثابت کی کہ رواں سال ٹیسٹ کرکٹ کی بولنگ اوسط میں پاکستان پہلے نمبر پہ ہے۔ یہاں تک کے جنوبی افریقہ اور بھارت کی بولنگ بھی اس لسٹ میں پاکستان سے نیچے ہے۔

لیکن اس بیٹنگ لائن کا کیا کیا جائے کہ ذرا سی منظم بولنگ سامنے آتے ہی خود پہ یقین کھو بیٹھتی ہے۔ جہاں کریز سے باہر پاوں دھرنا ہوتے ہیں، وہاں رکے رکے سے قدم تھک کر پیچھے ہٹنے لگتے ہیں۔

اور جب کوئی بلے باز کریز میں پیچھے ہٹنے لگے تو پھر اس کا یہ سفر زیادہ طویل نہیں ہو پاتا۔ ذرا سی دیر ہوتی ہے اور قدم کریز سے بھی پیچھے پویلین کی راہ ناپ رہے ہوتے ہیں۔

دفاع اور جارحیت کے بیچ ایک منحنی سی لکیر ہے جس کا نام ٹھہراؤ ہے۔ جو بلے باز اس سے آشنا نہیں اور جس بیٹنگ لائن کو اس کا فہم نہیں، اس کے لئے 175 کیا، 75 رنز کا ہدف بھی پہاڑ سے کم نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp