میں حسین نقی کو نہیں جانتا


میں حسین نقی کو نہیں جانتا۔ آپ حیران ہوں گے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ میں ایک ایسے صحافی کو نہ جانتا ہوں جو 1960 کی دہائی سے اپنے شعبے میں نمایاں ہے۔ دیکھیں اس کی وجہ بہت سادہ سی ہے اور آپ سنیں گے تو آپ بھی اس بات پر شرمندہ نہیں ہوں گے کہ آپ حسین نقی کو نہیں جانتے۔

دیکھیں میں نے ایوب خان کا مارشل تو دیکھا نہیں، سنا ہی ہے کہ اس وقت ملک میں نیا آئین بنا تھا اور پہلے الیکشن ہونے جا رہے تھے تو ناپسندیدہ عوامی نمائندوں کے اقتدار میں آنے کے خوف سے میجر جنرل اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگا دیا۔ اس مارشل لا نے انڈیا کو نہ صرف پنجاب کے دریا دے دیے بلکہ اسے دوسرے ممالک کے خلاف مشترکہ دفاع کی تجویز بھی دی جو نہرو نے مسترد کر دی۔

دارالحکومت اسلام آباد منتقل کیا تو ملازمتوں اور ترقیاتی منصوبوں میں اپنے کم حصے سے شاکی مشرقی پاکستانیوں کو اس کی سڑکوں سے پٹ سن کی ایسی بو آنے لگی کہ ملک میں علیحدگی کی مسموم ہوا چل پڑی۔ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا وہ تھا جب ایوب خان نے بنگالیوں کی آخری امید فاطمہ جناح کے خلاف الیکشن دھاندلی سے جیتا۔ اسی ایوب خانی الیکشن مہم میں آج کل مادر ملت کہلانے والی فاطمہ جناح کو انڈیا کی ایجنٹ اور غدار قرار دیا گیا۔ اب ہم نے تو ایوب خان کے خلاف جدوجہد نہیں کی کہ ہمیں پتہ ہوتا کہ حسین نقی کون ہے۔ ہم نے تو ایوب خان کی حمایت میں صفحے کالے کیے تھے۔

پھر ایسا ہوا کہ پاکستان کے علاوہ اسلام بھی ایک نازک دور سے گزرنے لگا۔ ایسے میں جنرل یحیی خان نے ملک اور اسلام کو بچانے کی خاطر بلا جبر و اکراہ اقتدار سنبھال لیا۔ اس موقعے پر بھی حسین نقی نے اس ڈکٹیٹر کی مخالفت شروع کر دی۔ بلکہ مشرقی پاکستان میں یحیی خانی ملٹری ایکشن پر جب بھٹو نے کہا کہ اب پاکستان بچ گیا، تو حسین نقی کہنے لگے کہ اب پاکستان نہیں بچا۔ اب ہم نے تو اس وقت مشرقی پاکستانیوں اور جمہوریت کا ساتھ نہیں دیا بلکہ ڈکٹیٹر کی حمایت کی۔ ہم تو اس کے اقتدار کے آخری دن تک اس کی حمایت میں اپنا قلم توڑتے رہے تھے۔ ہمیں کیا پتہ کہ اس کی مخالفت کرنے والا حسین نقی کون ہے؟

بھٹو کی حکومت نے جب سویلین آمریت کے رنگ دکھانے شروع کیے تو جس شخص نے طاقتور بھٹو سے اختلاف کیا اور بھرے جلسے میں اسے شٹ اپ کہا، وہ ہم تو نہیں تھے۔ جب وہ شخص جیل بھیجا گیا تو ہم اس کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے۔ ہمیں کیا پتہ کہ حسین نقی کون ہے؟

جب جنرل ضیا الحق نے اسی بھٹو کا تختہ الٹا اور ملک میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کی فصل بوئی تو ہم تو اس کے ساتھ کھڑے تھے۔ وہ تو ہمارا ہیرو تھا۔ اس کے ہر جابرانہ حکم میں ہمیں پاکستان کیا پوری امت کی سربلندی دکھائی دیتی تھی۔ اس کی خوشی کی خاطر کیے جانے والے فیصلے ہمیں پسند تھے۔ ہمیں کیا پتہ کہ اس کے خلاف مہم چلانے والا اور شاہی قلعے میں پابند سلاسل ہونے والا حسین نقی کون ہے؟

پسے ہوئے طبقات کے لیے جب ہیومن رائٹس کمیشن بنا تو ہم تو اس کے لیے کام کر کے حکمرانوں کے نشانے پر نہیں آئے تھے۔ ہم نے تو مجبوروں لاچاروں کے لیے کام کر کے اپنی زندگی خطرے میں نہیں ڈالی تھی۔ ہمیں کیا پتہ کہ حسین نقی کون ہے؟

ہمیں یہ اعتراف کرنے میں رتی برابر شرمندگی نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ تاریخ کی غلط سمت کھڑے رہے ہیں، ہم نے ہر ڈکٹیٹر کو مسیحا جانا، ہم نے ہر آمر کی آنکھیں بند کر کے حمایت کی اور عوام کو پیسنے میں اس کا ساتھ دیا۔ ہم نے ڈکٹیٹر کی بجائے عوام کے حق کے لیے کچھ لکھا ہوتا تو ہمیں پتہ ہوتا کہ ادھر کون کون ہے۔ ہمیں بھلا کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ حسین نقی کون ہے؟ اسی لیے تو میں پوچھ رہا ہوں کہ ”حسین نقی کون ہے؟ “

امید ہے کہ اگر آپ حسین نقی کو نہیں جانتے تو میری طرح آپ بھی اس پر شرمندہ نہیں ہوں گے۔ حسین نقی کو صرف وہی جانتے ہیں جنہوں نے سخت سے سخت حالات میں بھی آئین اور جمہوریت کا ساتھ دیا ہے اور ڈکٹیٹر کے جبر کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ میں ان میں سے نہیں ہوں۔ میں حسین نقی کو نہیں جانتا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar