فیض میلہ: ’بیرونی دباؤ‘ پر چار مقررین پر بولنے کی پابندی


مزاحمت کی علامت بیسویں صدی کے شاعر فیض احمد فیض کی شاعری اور زندگی کا جشن منانے کے لیے چوتھا سالانہ فیض میلہ لاہور میں منعقد کیا گیا۔ فیض کے اس میلے میں چار مقررین کو ’بیرونی دباؤ‘ کے تحت بولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

ادب و ثقافت، موسیقی، شاعری اور سیاسی بحث مباحثوں پر مبنی تین روزہ میلے میں سرحد پار انڈیا سے آئے شاعر اور نقاد جاوید اختر اور ان کی اہلیہ شبانہ اٰعظمی نے بھی شرکت کی۔

تاہم پاکستان سے تعلق رکھنے والے چار افراد جنہیں مختلف موضوعات پر بحث و مباحثے میں شریک ہونا تھا، ان کی جگہ خالی کرسیاں رکھی گئیں۔

صحافی اور تجزیہ کار راشد رحمٰن، معلم اور مزاحمتی موسیقی کے علمبردار بینڈ ’لال‘ کے بانی تیمور رحمٰن، علی وزیر اور ایف سی کالج لاہور میں معلم اور سماجی کارکن عمار علی جان کو میلے کے پہلے اور دوسرے روز مختلف موضوعات پر مباحثوں میں مہمانوں کے طور پر حصہ لینا تھا۔

تاہم ایسا نہیں ہو پایا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تیمور رحمٰن، عمار علی جان اور راشد رحمٰن نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ میلے کے منتظمین کی جانب سےانہیں بتایا گیا تھا کہ وہ ان سیشنز میں مہمان کے طور پر حصہ نہیں لے پائیں گے۔

تیمور رحمان اور عمار علی جان کو ’آزادیِ رائے‘ کے موضوع پر ایک مباحثے میں تجزیہ پیش کرنا تھا۔

تیمور رحمان نے بی بی سی کو بتایا کہ منتظمین کی جانب سے انہیں یہ بتایا گیا کہ ’چند مقتدر حلقوں کی جانب سے یہ شرط رکھی گئی ہے کہ تیمور رحمٰن کسی مباحثے میں بات نہیں کریں گے۔‘

’مجھے نہیں معلوم کہ وہ مقتدر حلقے کون ہیں اور مجھے منتظمین سے بھی کوئی گلہ نہیں۔ وہ یقیناً ایسا نہیں چاہتے تھے مگر مجبوراً انہیں ایسا کرنا پڑا۔‘

تاہم ان کے موسیقی کے گروپ لال کی جانب سے جو تقریب منعقد ہونا تھی وہ اپنے پروگرام کے مطابق ہوئی۔

’مجھے یہ نہیں سمجھ آیا کہ میرے بولنے سے کسی کو کیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ میں کوئی ایسی بات تو کرنے نہیں جا رہا تھا جس سے انتشار پھیلنے کا خطرہ ہو۔‘

تیمور رحمان کا کہنا تھا کہ ’آزادی رائے ہر شخص کا حق اور ایسے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں اسے کس طرح دبائے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ملک میں ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جہاں ’چند افراد نے واضح طور پر انتشار پھیلانے والی باتیں کیں مگر ان کے خلاف کچھ نہیں کیا گیا۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ’انہیں خواہ مخواہ کیوں ہیرو بنا دیا گیا۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عمار علی جان کا بھی کہنا تھا کہ انہیں محض چند گھنٹوں قبل منتظمین کی جانب سے بتایا گیا کہ ’بیرونی دباؤ کی وجہ سے اب انہیں اس سیشن میں بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔‘

عمار علی جان میلے کے دوسرے روز جس مباحثے میں مہمان کے طور پر شرکت نہ کر پائے اس کو سننے کے لیے وہ حال میں پہنچے ضرور۔ سٹیج پر ایک کُرسی خالی رکھی گئی تھی۔ ہال میں موجود چند طلبا نے ان کے حق میں احتجاج کرتے ہوئے آوازیں بلند کیں۔

تاہم انہیں سمجھانے کے بعد عمار علی جان سامعین میں شامل ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ان ہی کے تاثرات کا اظہار بہت سے دیگر شرکا نے مختلف موضوعات پر بولتے ہوئے کیا تھا۔ تو مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ میری وہی باتیں کرنے سے کسی کو کیا مسئلہ ہو سکتا تھا۔‘

’اس قسم کے ماحول میں جہاں آپ کو پانچ سے دس منٹ بولنا ہو اس میں آپ کتنا کچھ بول سکتے ہیں۔ اور میرے بولنے سے کسی کو کیا نقصان ہونا تھا۔‘

تاہم ان کا بھی یہ کہنا تھا کہ منتظمین کو ’ایک مشکل صورتحال کا سامنا تھا جہاں انہیں شاید پوری تقریب بچانے کے لیے یہ سمجھوتہ کرنا پڑا۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صحافی اور تجزیہ نگار راشد رحمان کا کہنا تھا کہ ’منتظمین کو نامعلوم ذرائع سے دھمکایا گیا تھا کہ احکامات پر عمل نہ کرنے کی صورت میں تقریب کے انعقاد کے حوالے سے حکومت کی طرف سے جاری کردہ نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ واپس لے لیا جائے گا۔‘

فیض میلہ 2018 کے منتظمین فیض فاؤنڈیشن ٹرسٹ کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا۔ منتظمین میں سے فیض احمد فیض کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی نے ذاتی حیثیت میں بی بی سی کو بتایا کہ ’سٹیج پر ایک خالی کُرسی رکھی گئی تھی، یہ ہمارا جواب ہے۔‘

اس واقعے کے حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر بھی بحث جاری ہے۔ خصوصی طور پر تقریب میں شریک ہونے والے دیگر شرکا کی جانب سے ٹویٹر پر بیانات سامنے آئے ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ممبر اور سماجی کارکن ماروی سرمد نے لکھا کہ ’انہیں عاصمہ جہانگیر اور منو بھائی کے زندگیوں کے حوالے سے اس سیشن کی میزبانی کرنا تھی جس میں تیمور رحمان کو بولنا تھا۔‘

تاہم سیشن کے آغاز پر انہیں بتایا گیا کہ تیمور نہیں آ رہے۔

’کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ اگر وجہ بتائی جاتی تو میں وہیں اس کے خلاف احتجاج کرتی۔‘

جنوبی ایشیا میں بین الاقوامی قوانین کی ماہر ریما عمر نے بھی عمار علی جان کے ایک ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’کیا فیض میلے کے منتظمین اس سنسر شپ کے پیچھے جو لوگ ہیں ان کی شناخت کریں گے اور وہ آزادی رائے سے اس قدر خائف کیوں ہیں۔‘

فیض میلے کے شرکا میں شامل وکیل اور سکالر عائشہ احمد نے اپنی تقریر کا اس حصے کی ویڈیو ٹوئٹر پر ڈالی جس میں انھوں نے ’ لاہور کے دو انتہائی پُرعزم بائیں بازو کے کارکنان عمار علی جان اور تیمور رحمان کی زبان بندی کے خلاف احتجاج کیا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32498 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp