امریکی صدر کے بیان پر پاکستانی سیاست دانوں کا اتفاق رائے


ایک دوسرے سے دست و گریبان پاکستانی سیاست دان بالآخر اس ایک نکتہ پر متفق ہوگئے ہیں کہ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ پاکستان نے امریکہ کے لئے کچھ نہیں کیا۔ وزیر اعظم عمران خان سمیت، مسلم لیگ کے رہنما اور سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف اور سینیٹ کے سابق چئیرمین اور پیپلز پارٹی کے لیڈر رضا ربانی نے امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے پاکستان کی خدمات کو گنوایا ہے اور بتایا ہے کہ پاکستان نے امریکہ کی محبت میں افغان جنگ میں حصہ دار بن کر کس قدر جانی و مالی نقصان اٹھایا ہے۔ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا معاملہ الگ ہے لیکن یہ بہر طور خوش آئند ہے کہ ملک کی تین بڑی پارٹیاں کسی ایک مسئلہ پر ایک ہی طرح سوچتی ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز اپنے پسندیدہ ٹی وی چینل فوکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے ضمنی طور سے پاکستان کا ذکر کیا جس میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وہ خود دریافت کردہ جس نئی قوم پرستی کو فروغ دے کر امریکی ووٹروں میں اپنا حلقہ اثر قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے پرچار کے لئے انہیں امریکی سیاست دانوں کے علاوہ بعض ایسے ’دشمن ‘ ممالک بھی درکار ہیں جن پر الزام تراشی کے ذریعے وہ ایک ایسے سیاسی ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کررہے ہیں جو متعدد امریکی ماہرین کے نزدیک خود امریکہ کے وسیع تر مفادات کے برعکس ہے۔ اس مقصد سے کبھی کینیڈا کے وزیر اعظم کو آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے، کبھی فرانسیسی صدر سے تنازع کھڑا ہوتا ہے اور کبھی ایران کے خلاف بیان بازی کے ذریعے ایک خاص ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ جیسی سپر پاور کے صدر ہیں، ان کی متعدد باتوں کو نظر انداز کرنے کی کو شش کی جاتی ہے۔ تاہم جب وہ اپنے دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں امریکہ میں اپوزیشن ڈیموکریٹ پارٹی کے علاوہ قریب ترین حلیف ملکوں کی طرف سے بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ابھی تک پوری دنیا ڈونلڈ ٹرمپ نامی ’سونامی‘ کی تباہ کاری اور بے یقینی کو سمجھنے اور اس کے مطابق لائحہ عمل بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسی کشمکش کا شکار امریکی ری پبلیکن پارٹی بھی ہے جو یوں تو اقدار کو فروغ دینے والی قدامت پسندانہ سوچ رکھنے والے عناصر کی پارٹی ہے لیکن وہ ایک ایسے شخص کو صدر منتخب کروا چکی ہے جو ناقابل اعتبار، بد اخلاق اور منہ پھٹ و بدتہذیب ہے۔ ٹرمپ کی گفتگو کا یہی طریقہ انتہا پسند امریکیوں میں بدستور ان کی مقبولیت کا سبب بنا ہؤا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ری پبلیکن پارٹی اپنی بنیادی سیاسی اقدار اور اصولوں کے خلاف گامزن ایک صدر کی پشت پر کھڑا رہنے میں ہی عافیت سمجھتی ہے۔ یہ صورت حال اسی وقت تبدیل ہو سکے گی جب ٹرمپ کی مقبولیت کا گراف کسی وجہ سے نیچے آئے گا اور ری پبلیکن پارٹی ان سے کنارہ کشی کا رویہ اختیار کرے گی۔ اس وقت تک پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ملکوں کوایک ناقابل اعتبار امریکی صدر کی لغویات کے ساتھ ہی آگے بڑھنا ہے۔

گو کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف امریکی رائے کو منہ پھٹ انداز میں پیش کرکے باہمی تعلقات کی نوعیت کو تبدیل کیا ہے لیکن یہ حقیقت بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ٹرمپ کےغیر مہذب اور غیر سفارتی انداز میں پاکستان دشمن بیانات کو مسترد کرنے کے باوجود پاکستان نے بہر حال امریکہ سے تعاون کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنا تو پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اور اب اس پارٹی کے ہر اقدام کو منفی اور ناقابل قبول قرار دینے والی پارٹی تحریک انصاف حکمران ہے۔ تاہم اس وقت بھی امریکی صدر کے بیانات کی مذمت ہی قومی وقار بحال کرنے کا واحد راستہ تھی اور آج بھی یہی حکمت عملی ملکی خارجہ پالیسی بلکہ قومی مزاج کا کی بنیاد ہے۔ یوں تو ڈونلڈ ٹرمپ سیاست دان کےطور پر کئی برس سے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہے تھے لیکن امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے بعد جولائی 2017 میں صدر ٹرمپ نے افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے پہلی بار پاکستان پر براہ راست نکتہ چینی کی اور اسے امریکی امداد لے کر امریکی مفادات کا خون کرنے والا ملک قرار دیا تھا۔

 اس سخت پالیسی بیان کا جواب دیتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ ’ ہمیں کسی مالی یا مادی امداد کی ضرورت نہیں بلکہ ہم اعتماد، افہام و تفہیم کی خواہش رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف ہمارے کردار کو تسلیم کیا جائے‘۔ اس کے ساتھ ہی جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسٹیک ہولڈرز کو مل جل کر باہمی تعاون و کوشش سے طویل افغان جنگ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانا چاہئے۔ اس وقت پاکستان کی قومی اسمبلی نے بھی ایک قرارداد کے ذریعے امریکی صدر کے بیان کو جارحانہ اور دھمکی آمیز قرار دیا تھا۔ خواجہ آصف نے وزیر خارجہ کے طور پر امریکہ کے ساتھ تمام اعلیٰ سطحی روابط معطل کرنے پر اصرار کیا تھا۔ تاہم صدر ٹرمپ اس سال کےآغاز پر ٹویٹ پیغامات کے ذریعے پاکستان پر حملہ آور ہوئے تو بھی پاکستان کے فوجی اور سول حکام کا رد عمل وہی تھا جو چند ماہ پہلے اختیار کیا گیا تھا۔ یعنی مذمتی بیانات اور صورت حال بدستور اپنی جگہ موجود رکھنے پر اصرار۔ امریکہ اس دوران پاکستان کی امداد بند کرتا رہا اور پاکستانی قیادت مذمت کرنے اور اپنی قربانیوں کی فہرست پیش کرنے میں مصروف رہی۔

اب ایک بار پھر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستان یاد آیا ہے اور پرانی باتیں دہراتے ہوئے ایک بار پھر یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان نے کثیر امداد لینے کے باوجود امریکہ کے لئے کچھ نہیں کیا اور یہ کہ اس نے اسامہ بن لادن کو ملٹری اکیڈمی کے ہمسایہ میں ایک شاندار مینشن میں رکھا ہؤا تھا اور تمام پاکستانی لیڈروں کو اس کا پتہ تھا۔ اس تند و تیزبیان کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان کے علاوہ رضا ربانی اور خواجہ آصف نے جو باتیں کہی ہیں وہ اسی پالیسی بیان کا پرتو ہیں جو 2017 میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے جاری کیا تھا کہ ’پاکستان کو مالی یا فوجی امداد کی نہیں بلکہ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کی قربانیوں کو تسلیم کیا جائے اور ان کا احترام کیا جائے‘۔ آج وزیر اعظم عمران خان نے ٹویٹ پیغامات میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا ذکر کررہے تھے توان کی بنیاد بھی لگ بھگ ڈیڑھ برس قبل فراہم کردہ وہی رہنما اصول تھا جو پاک فوج کے سربراہ نے واضح کیا تھا۔ جس پر اس وقت کی قومی اسمبلی اور حکومت نے بھی صاد کیا تھا اور اب بھی وزیر اعظم اسی طرز استدلال کو اختیارکرتے ہوئے یہ واضح کررہے ہیں کہ نہ تو پاکستان نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے اور نہ ہی اس کے پاس امریکی صدر کے دھمکی آمیز بیانات کا مقابلہ کرنے کے لئے متبادل انتظامات موجود ہیں۔

 اب بھی قومی اسمبلی امریکی صدرکے خلاف ایک نئی قرارداد منظور کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکے گی اور اب بھی خارجہ پالیسی اور پاک امریکہ تعلقات کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانا اور منتخب ارکان کی صوابدید کے مطابق پالیسی بنانا ممکنا ت میں شامل نہیں ہے۔ پاکستان نہ جانے کس حد تک امریکہ کی مجبوری ہے لیکن پاکستان ہر شعبہ میں امریکی سہارے اور تعاون کا محتاج ہے۔ فوج امریکی ہتھیاروں پر انحصار کرتی ہے اور امریکہ کی ناراضگی اس کی فوجی صلاحیتوں پر فوری منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے۔ پاکستان کو عالمی سطح پر ٹیرر فنانسنگ کے سلسلہ میں مشکلات کا سامنا ہے اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے امریکی امداد ضروری ہوگی۔ آئی ایم ایف سے جس مالی پیکیج کی امید کی جارہی ہے، وہ بھی امریکہ کی خوشنودی کے بغیر ملنا ممکن نہیں ہوگا۔

اس تناظر میں ٹرمپ کے مقابلہ میں دھؤاں دار بیانات داغنے کا آپشن استعمال کرنے سے پاکستان کی مشکلات کم نہیں ہو سکتیں۔ اس مقصد کے لئے تدبر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے البتہ اپنے بیانات میں بعض دلچسپ نکات اٹھائے ہیں جن کا جواب بھی انہیں خود ہی دینا پڑے گا۔ عمران خان نے اپنی پہلی ہی ٹویٹ میں ریکارڈ درست کرنے کا تقاضہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ نائن الیون کے حملوں میں کوئی پاکستانی شہری ملوث نہیں تھا۔ لیکن پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا‘۔ اسی حوالے سے اپنی آخری ٹویٹ میں وزیر اعظم عمران خان نے سوال اٹھایا ہے کہ ’اپنی ناکامیوں کے لئے پاکستان کو نشانہ بنانے کی بجائے امریکہ کو سنجیدگی سے اس بات کا جائزہ لینےکی ضرورت ہے کہ 140000 نیٹو افواج اور 250000 افغان افواج کے ہوتے اور مبینہ طور پر افغان جنگ پر ایک کھرب ڈالر صرف کرنے کے باوجود آج طالبان کیوں پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہیں‘۔

عمران خان کے یہ دونوں بیان ان کے گلے کی ہڈی بن سکتے ہیں۔ اگر پاکستانی شہری امریکہ پر حملوں میں ملوث نہیں تھے تو ان حملوں میں ملوث 19 افراد میں سے 15 سعودی عرب کے شہری تھے۔ سعودی عرب کا شاہی خاندان صدر ٹرمپ کو اتنا عزیز ہے کہ سعودی صحافی عدنان خشوگی کی ہلاکت پر دنیا بھر سے احتجاج سامنے آنے کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب کی پشت پر کھڑے ہیں۔ اور شاہ سلمان نے حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد پاکستان 6 ارب ڈالر کا امدادی پیکیج بھی دیا ہے۔ اس مثلث میں کچھ تو یکسانیت ہوگی۔ جہاں تک طالبان کے مضبوط ہونے کا سوال ہے، امریکی صدر متعدد بار پاکستان کو اس کا ذمہ دار قرار دے چکے ہیں۔ ایک سپرپاور کے مقابلے میں ایک کمزور ملک کی بات کا جتنا وزن ہو سکتا ہے، اسی قدر اہمیت عمران خان کی اس تجویز کوبھی دی جائے گی۔ یوں بھی امریکہ سے یہ سوال پوچھنے سے پہلے اگر وزیر اعظم فوج سے اس بارے میں مشورہ کرلیں تو انہیں شافی معلومات مل سکتی ہیں۔

عمران خان کے ٹرمپ کے مقابلے میں اترنے سے پہلے وفاقی وزیر شیرین مزاری یہ ٹویٹ کرچکی تھیں کہ امریکہ کو خوش کرنے کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ٹرمپ کے پاکستان پر طنز اور یہ دعوے کہ پاکستان امریکہ کے لیے کچھ بھی نہیں کرتا، ان پاکستانی رہنماؤں کے لئے سبق آموز ہونا چاہئیں جو امریکہ کو خوش رکھنے کے لئے کوشاں تھے‘۔ عمران خان سلامتی امور کی ماہر مگر انسانی حقوق کی نگرانی پر مامور وزیر کی اس بات کو اگر آئندہ ملاقات میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے سامنے رکھ سکیں تو شاید سیکھنے سکھانے کا عمل کچھ آگے بڑھ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali