دنیا کا مسلمان آسیہ کیس میں کیوں غائب تھا؟


غور کرنے والی بات یہ ہے کہ دنیا کے ایک کروڑ سے زائد مسلمان جو یورپ کے چند انتہا پسندوں کے ہاتھوں نبی ﷺ کی توہین کے خلاف کھڑے ہو گئے تھے، وہ پاکستانی مظاہرین کے ساتھ آسیہ بی بی کیس میں کیوں سڑکوں پر نہیں آئے؟

یہ بہت اہم سوال ہے۔ تحریک لبیک کے مظاہرین کے ساتھ کسی بھی مسلمان ملک میں کوئی ایک مذہبی شخصیت حمایت میں سامنے نہیں آئی، نہ ہی کوئی مظاہرہ ہوا۔
اس سوال کا جواب اہم ہے، اور پاکستانیوں کو، خصوصاً ہمارے مذہبی طبقے کو، اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

لیکن پہلے یہ کہنا ضروری ہے کہ ایک غریب مسیحی خاتون کو ایک اسلامی مملکت میں انصاف ملنا اچھی بات ہے۔ ناموس رسالت کے تحفظ سے کوئی مسلمان اور پاکستانی پیچھے نہیں ہٹ سکتا چاہے کتنا بھی دنیا کا دباؤ ہو۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اس کیس میں پاکستان پر کوئی دباؤ نہیں تھا، اوراس سلسلہ میں سوشل میڈیا پر پیش کیے گئے سازشی نظریات کا ثبوت کے ساتھ جواب دینا آسان ہے۔ نہ ہی آسیہ کیس کوئی مذہب کی بقا کی جنگ تھی۔ اس کیس میں بہت مبالغہ آرائی ہوئی اور پاکستانیوں کو گمراہ کیا گیا، جو اچھی بات نہیں تھی۔

پہلے دن سے، اس کیس کے پوشیدہ حقائق جاننے کے بعد مجھے خاصہ یقین ہوگیا تھا کہ اس خاتون کے ساتھ ظلم ہوا ہے، اور ظلم کرنے والے کچھ مسلمان ہیں، بلکہ کہیں کچھ مسلمان خواتین ہیں۔

اس غریب خاتون نے کیا توہین کرنی تھی۔ توہین پر وہ پانچ مسلمان خواتین گرفتار ہونی چاہئیں جنہوں نے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان لگاتے ہوئے اس غریب کو کہا کہ ہمارے نبیؐ نے عیسائیوں کے ہاتھوں سے پانی پینے سے منع کیا ہے۔ یہ پانچ ان پڑھ مسلمان خواتین کھیتوں میں کام کرتی ہیں اور شاید اس غریب آسیہ کو علاقے سے نکالنا چاہتیں تھیں۔

اہم بات یہ ہے کہ یہ نا تو توہین رسالت کا کیس ہے اور نہ ہی کوئی مذہبی مسئلہ ہے۔ ایک غریب پاکستانی خاتون جو کھیتوں میں کام کر کے چھوٹی بچیوں کو پال رہی تھی اس کا کیا ایجنڈا ہوسکتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے۔ پولیس نے مجمع کے دباؤ میں اعترافی بیان نکلوالیا اور کیس بن گیا۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے کیسز کیوں بار بار پیدا ہوتے ہیں؟ اور وہ بھی ایسے کیسز جہاں خدانخواستہ ایک مزدوری کرنے والی کی وجہ سے ہمارا ایمان اور مذہب خطرے پڑ جاتا ہے؟ مغرب کو چھوڑیں، اب دوسرے مسلم ممالک ہم سے یہ سوالات اٹھاتے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں یہ باتیں پاکستان میں کیوں ہوتی ہیں؟ صورتحال یہ بن گئی ہے کہ اب کوئی بھی مسلم ملک اپنے دینی انسٹیٹیوٹس چلانے کے لئے پاکستانی مذہبی سکالرز کو مدعو نہیں کرتا۔ کمیونسٹ نظام کے خاتمے کے بعد وسطی ایشیائی اسلامی ریاستوں میں دینی مدارس میں تعلیم کے لئے پورے عالم اسلام سے اسکالر طلب کیے گئے تھے، سوائے پاکستان کے۔ کیوں؟

رہ گئی بیرونی دباؤ کی بات۔ کہا گیا ہے کہ یورپین یونین والوں نے پاکستان کو جی ایس پی تجارتی معاہدے کے لئے خاتون کی رہائی کا شرط رکھا تھا۔ جب اس معاہدے پر بات ہو رہی تھی، آج سے تین چار سال پہلے، تب مجھے یاد ہے کہ پاکستان نے واضح کیا تھا کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے، رہائی ممکن نہیں، البتہ آپ کو ایک منصفانہ عدالتی کارروائی کی یقین دہانی کرواتے ہیں۔ اگر آسیہ پر فرد جرم عائد ہوجاتا، تو کیا یورپ نے معاہدہ ختم کر دینا تھا؟ یہی یورپ ملٹری کورٹس کے خلاف بھی دباؤ ڈال رہا تھا، اور موت کی سزاؤں کے خلاف بھی۔ کیا پاکستان دباؤ میں آیا؟

اور ایسی بھی بات نہیں کہ یورپ اسلام کے نبی ﷺ کی توہین کرنے کی حمایت کررہا ہے۔ یہی یورپ ہے جس کی عدالت نے ستمبر میں فیصلہ سنا دیا کہ یورپ کے کسی بھی شہری کی طرف سے رسول ﷺ کی شان میں توہین، آزادی اظہار رائے کے زمرے میں نہیں آتا۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک طرف اسلامی تاریخ کا تفصیلی ذکر کرتا ہے جہاں مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے عیسائی شہریوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا۔ اور دوسرا یہ واضح کرتا ہے کہ اس کیس کی ایف آئی آر پانچ دنوں بعد رجسٹر ہوئی، جس سے بدنیتی اور عدم انصاف کا خدشہ ظاہر ہوتا ہے، خاتون کا اعتراف پولیس دباؤ اور تشدد سے لیا گیا، اور پھر گواہوں کے بیانات میں واضح فرق ہے، جس کا ثبوت موجود ہے۔ نچلی سطح کی عدلیہ نے بظاہر دباؤ کے تحت فیصلہ جاری کیا، اور اعلی عدلیہ نے نہ صرف انصاف کیا بلکہ عدل کے اسلامی فریضے کا اہم پہلو سامنے رکھا: اور وہ یہ کہ الزام لگانا کافی نہیں بلکہ ثابت بھی ہونا چاہیے اور ثبوت نامکمل ہونے کی صورت میں توہین رسالت کیس میں بھی بریت ہوسکتی ہے۔ توہین کا الزام لگا کر فوراً قتل کرنے کی جو روایت بن گئی پاکستان میں وہ سراسر غلط ہے اور اسلام کے منافی ہے۔

اب ہمارا سوال: دنیا کا مسلمان آسیہ کیس میں کیوں غائب تھا؟ کیوں یورپ میں توہین رسالت کے معاملے پر دوسرے ملکوں کے مسلمانوں نے مظاہرے کیے لیکن آسیہ کیس میں پاکستانی مظاہرین تنہا تھے؟

دنیا میں ایک ارب مسلمان ہیں، کیا سب سیکولر ہیں؟ کیا اسلام کا مورچہ صرف دو یا پانچ یا دس ہزار پاکستانی مولویوں نے سنبھالا ہوا ہے؟ یہ عرب ترک ایرانی ازبک نائجیری اور انڈونیشیا والے پوچھتے ہیں کہ یہ چند پاکستانی مولویوں کو اسلام کا ٹھیکیدار کس نے مقرر کیا ہے؟

علماء قابل إحترام ہیں۔ لیکن ہماری سڑکوں پر سر پھرے لوگ علماء نہیں تھے۔ یہ زیادہ تر اچھے عام پاکستانی تھے جن کو اکسایا گیا۔ پاکستان سمیت دنیا کے مسلمانوں کی اکثریت پاکستانی مظاہرین کے ساتھ نہیں کھڑی ہوئی۔ عالم اسلام سے ہماری سڑکوں پر مظاہرین کی حمایت میں یا مسیحی خاتون کے خلاف ایک بیان نہیں آیا۔

پاکستان اسلامی ریاست ہے۔ آپ کی رائے نا ماننے سے یہ ریاست سیکولر نہیں بن جاتی۔

پانچ ان پڑھ مزدوری کرنے والی خواتین کا جھگڑا خدانخواستہ اسلام کی بقا کی جنگ کے مترادف نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اسلام کو پاکستان میں کوئی خطرہ ہے، اور نہ ہی کسی کی ہمت ہے کہ پاکستان کو لادین ملک بنا سکے۔ مسیحی خاتون کو انصاف ملنے سے ایک مسلمان ملک سیکولر نہیں ہوجاتا، بلکہ مزید مسلمان بن جاتا ہے۔ (ویسے ترک صدر اردگان نے گزشتہ سال دبئی کے العربیہ ٹی وی کو انٹرویو میں کہا تھا کہ مسلمان سیکولر نہیں ہوسکتا، البتہ ریاست کو تمام مذاہب کے لئے یکساں ہونا چاہیے اور بقول صدر اردگان کے اسی کو سکیولرزم کہتے ہیں۔ یہ ایک الگ بحث ہے، پھر کبھی اس پر بات کریں گے ) ۔

اگر آسیہ کوئی ادیب یا مفکر ہوتی تو شاید ہم کہہ سکتے تھے کہ اس کا کیس ایک اہم فکری معرکہ ہے۔ لیکن مزدوری والی خواتین کی لڑائی کی کہانی کو دوسرے ممالک کے مسلمانوں کے سامنے دہرانے سے ہمیں چہروں پر صرف طنز نما مسکراہٹیں نظر آئیں اور کچھ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).