یوٹرن، لڑکیوں کی خاندانی وراثت اور جاگیردار


حال ہی میں ہم لندن شفٹ ہوئے ہوئے ہیں بڑے بڑے شہروں میں رہنا میرے ابو جی کو پسند تھا۔ یہاں سیٹ ہونے میں تھوڑا ٹائم تو لگے گا لیکن سب سے پہلے یہاں آ کے جس چیز سے متاثر ہوئے اور خود کو بہت چھوٹا محسوس کیا وہ یہ کہ یہاں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ہے ان میں سو میں سے نوے خواتین نے حجاب اور سکارف لیے ہوئے تھے جبکہ ہم تو ننگے سر ہی باہر گئے جب جاکر دیکھا تو دل میں ایک احساس ہوا جو شاید لفظوں میں بیان نہ کر پائیں۔

خیر آج کا موضوع ہے یو ٹرن یعنی پیچھے پلٹنا تو میرے خیال میں یہ ہونا چاہیے۔ اگر نہ ہوا تو ہم صدیوں سے چلے آرہے اصولوں کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔ ہمارا تعلق پنجاب سے ہے اور پنجاب میں جو خاندانی وراثت ہے اس میں سے ہمیشہ سے عورت کا حق اسے نہیں دیا جاتا۔ یہاں تک کہ پہلے تو عورتوں کو گھر بٹھا دیا تھا کہ ان کی شادی ہوگئی تو زمین چلی جائے گی۔ اب شادیاں تو کر دیتے ہیں لیکن ماں باپ کی خدمت کے لئے بھائی ان کو بلا لیتے ہیں یہ کہ کر کہ یہ بیٹیوں کا حق ہے اور بہو تو پرائی ہے۔

لیکن جب ماں باپ فوت ہو جاتے ہیں تو ان سے بول چال بھی بند کر دی جاتی ہے۔ کہ زمینوں کی آمدنی دیکھ کر ادھار ہی نہ مانگ لیں۔ کئی جائیدادوں کی مالک خواتین فطرانہ مانگنے پہ مجبور ہو جاتی ہیں۔ یہ ظلم ہے جبکہ ہمارا مذہب بھی ہمیں خاندانی وار اثت کا حق دیتا ہے۔ لیکن ہمارے جاگیردار عورت کو مکھی کی طرح نکال دیتے ہیں۔ شیریں مزاری صاحبہ بھی چلیں پہلے تو گرمی کی وجہ سے نیند پوری کرتی تھیں لیکن اب تو اس پہ بات کر سکتی ہیں۔

دیہی علاقے کی عورت کو خاموش کر کے ظلم سہنے پہ مجبور کیا جاتا ہے کہ تمھاری عزت ختم ہو جائے گی اگر تم نے بھائیوں یا تایا سے اپنے حق کی بات کی۔ کئی خواتین عید والے دن بھی گوشت کو ترستی ہیں اور ان کے نام کی سب جائیداد پٹوار کے کاغذات میں جعلی انگوٹھے لگا کے ان کے وارثوں کے نام کی ہوتی ہے۔ اگر اس بات پر بھی یو ٹرن نہ لیا جائے تو ہم سب قصور وار ہیں یہاں باہر آکے پتا چلا کہ ان لوگوں نے انسانوں کے، مزدور کے اور جانوروں کے بھی حقوق بنائے ہوئے ہیں اور ان حقوق پر عملدرآمد کرانا حکومت کا کام ہے۔

کل ایک جگہ ہم سے پے سلپ مانگی گئی۔ ہم بیگ میں ڈھونڈنے لگے تو گورا کہتا نو پرابلم اگر نہیں ہے تو ہم آپ کے باس سے لے لیں گے، یہ آپ کا لیگل رائیٹ ہے۔ ایسی باتیں دیکھ کے تو ان خواتین یا غریب جو ہمارے ملک میں ہیں یا خواجہ سرا جن کے کوئی لیگل رائٹس نہیں ہوتے۔ پاکستان میں قانون، تعلیم سب کچھ صرف امیر لوگوں کے لئے ہے۔ یہاں سب کے لئے برابر ہے۔ یہاں آکر انسان اپنے اپ کو پہچان پاتا ہے کہ میرا حق کیا ہے۔ دیہی علاقوں میں بوڑھے والدین کو بیٹی کے گھر چھوڑ آتے ہیں جب وہ مرنے لگتے ہیں۔ وارث سفید کلف لگے کپڑے پہنے پٹواری کے ساتھ پہنچ جاتے ہیں کہ فوتگی ہم اپنی حویلی میں منائیں گے عزت کا سوال ہے۔ پھر بھائی اور تایا لڑکی سے انگوٹھے لگو کے میت کے وارث بن جاتے ہیں اور یہ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ پاکستان کا تعلیمی نظام آپ کے سامنے ہے۔ اس کی حالت کسی کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ رضوی صاحب نے جو متعارف کرا دیا ہے اس کے بعد جو کچھ پردہ تھا وہ بھی سامنے آگیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).