میرے ابا جان، سائنسی تحقیق اور جانو جرمن کچھوا


جس کرائے کے گھر میں ہم ستر کی دھائی میں مقیم تھے وہ دو کمروں پر مشتمل ایک چڑیا گھر تھا۔ ہم چار بہن بھائیوں کی موجودگی میں وہاں شیر، ہاتھی چیتے وغیرہ کی گنجائش تو نہیں نکلتی تھی مگر امی، جو مقامی کالج میں لڑکیوں کو فارسی پڑھاتی تھیں، اپنے تمام تر قلبی تعلق اور محبت کے باوجود شاید ہم بچوں کو یکے از نوعِ حیوانات ہی سمجھتی تھیں۔ ایک واقعہ جو امی خود سنا کر بہت لطف اُٹھاتی تھیں، کچھ یوں ہے کہ ایک بار وہ شاید مجھے یا میرے چھوٹے بھائی کو اسکول چھوڑ کر آئیں اور جونہی گھر کے صحن میں قدم رکھا، کیا دیکھتی ہیں کہ ایک کتابوں بھرا بستہ اُڑتا ہوا آیا ہے اور ان کے سامنے زمین بوس ہوگیا ہے۔ وہ غیض و غضب میں بھری ہوئی گھر سے باہر نکلیں تو سامنے انہیں اپنا وہ صاحبزادہ دکھائی دیا جس کو وہ اپنی دانست میں اسکول چھوڑ کر آئی تھیں۔ یہ دیکھ کر وہ فورا برقع سنبھالے اس کے پیچھے لپکیں تاکہ جی بھر کے اس کی تادیب کر سکیں ، اور وہ بچہ جان بچانے کی غرض سے سبزی منڈی کی جانب ایک سڑک پر بھاگنے لگا۔ کچھ ہی دور پہنچے تو دیکھا کہ ایک جگہ بقول امی جان کچھ آوارہ لڑکے کھڑے تھے جن میں سے ایک نے موقع غنیمت جان کر اس میاں صاحبزادے کے ایک دو تھپڑ جڑ دیئے۔ امی اپنا غصہ بھول بھال، اس روتے ہوئے لال کی دل جوئی کرنے لگیں۔ امی جان کی پھٹکار پر وہ مارنے والا لڑکا جب بھاگا تو فی الفور اس کے گھر مار کا حساب لینے چلی گئیں۔

خیر ہمارے اسی چھوٹے سے گھر میں ہمارے علاوہ ابا جان (ڈاکٹر محمد شریف خان) کے سانپ، چھپکلیاں اور مینڈک بھی مقیم تھے، خواہ زندہ ہوں یا مردہ۔ اباجان کے گورنمنٹ کالج لاہور کے استاد ڈاکٹر احسن الاسلام نے ایم ایس سی کی تعلیم کے دوران ان کو تحقیق و تدقیق کی جس راہ پر ڈال دیا تھا اس میں وہ دو کمروں کی تنگی کوہرگز حارج نہیں سمجھتے تھے۔ ایک روز امی جب کالج سے گھر واپس آئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ گھر کے اس کمرے میں، جو بیک وقت بیڈ روم اور ڈائننگ روم تھا، چند بے کواڑ الماریوں میں ابا جان کے یہ سانپوں، چھپکلیوں اور مینڈکوں بھرے مرتبان جوپہلے کہیں چارپائیوں تلے چھپے رہتے تھے ، اپنے اپنےلیبل سمیت بہارِ جانفزا دکھلا رہے ہیں۔ اس دن ابا کی آمد پر کچھ دیر تو گھر میں قیامت کا سما ں رہا، جس دوران امی نے ابا جان پر یہ بات واضح کردی کہ ہمارا معاشرتی ارتقا ابھی اس مقام تک نہیں پہنچا جہاں ان الماریوں میں تام چینی کے برتنوں کے بجائے یہ سانپ اور مینڈک بھرے مرتبان سجائے جا سکیں۔ اس مناقشے کے بعد اباجان نے یہی مناسب سمجھا کہ یہ متاعِ تحقیق واپس کالج کی تجربہ گاہ میں پہنچا دی جائے۔اب دقت یہ آن پڑی کہ کالج کے بعض جونیر اساتذہ ابا پر یہ الزام لگانے لگے کہ وہ اس تجربہ گاہ کا استعمال اپنی ذاتی تحقیق کے لئے کرتے ہیں اور وہاں کی الماریاں اپنے مرتبانوں سے بھرتے ہیں۔ اس لئے ابا جان کے پاس یہ سب مال گھر لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ خیر۔۔ ۔ جب قضائے الٰہی سے ہماری انتہائی مشفق اور محب ، نانی جان کی وفات ہوئی اور نانا جان صحت کی مستقل خرابی کے باعث بڑے ماموں کے ہاں لاہور چلے گئے ، نانا جان کا گھر خالی ہوگیا بڑے ماموں نے کمال مہربانی سے ہمارے والدین کو مشورہ دیا کہ کرائے کا گھر چھوڑ کر اس گھر میں شفٹ ہو جائیں۔ ناناجان کا گھر بہت وسیع تھا اور وہاں امی نے ایک کمرہ جو بقیہ گھر سے الگ تھلگ تھا ابا کو سونپ دیا۔ وہ کمرہ ابا کی تجربہ گاہ ٹھہرا مگر ان مرتبانوں کی تعداد اب روز بروز بڑھنے لگی کیونکہ انہوں نے اردگرد کے دیہات میں یہ اعلان کروا رکھا تھا کہ جو بھی ان کو مردہ سانپ یا مینڈک وغیرہ لا کر دے گا ،اس کو دس روپئے بطور معاوضہ ملیں گے۔ آخر اسی گھر کے ایک کونے میں بنا ہوا ایک کچا کوٹھا بھی ابا جان کو تفویض ہوگیا اور ان جانوروں کے رکھنے کا مسئلہ حل ہوا۔ اس زمانے میں اباجان نے اپنے فرماں بردار شاگردوں کو جو پاکستان کے مختلف حصوں میں مقیم تھے کہلوا بھیجا کہ مجھے اپنے اپنے علاقوں کے سانپ اور مینڈک بھجوا یا کرو۔ کچھ صاحبانِ ذوق تو اباجان سے وہ محلول (جس کی بدبو میری بچپن کی یادوں میں رچ بس گئی ہے اور) جس میں مردہ جانوروں کو preserve کیا جاتا تھا، ہمراہ لے جاتے اور سال میں ایک آدھ بار اپنی اپنی توفیق کے مطابق سانپ یا مینڈک بطور ہدیہ اپنے استاد کی نذر کرتے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے گھر میں پہلا ٹیپ ریکارڈر اس لئے خریدا گیا تاکہ ابا جان برسات کی راتوں میں ارد گرد کے کماد کے کھیتوں میں گھوم پھر کر مینڈکوں کے ٹرّانے کی آوازیں ریکارڈ کر سکیں۔ ان آوازوں کا ایک وسیع خزانہ کئی سال ہمارے گھر میں رہا۔ بعد ازاں جب انہیں کیسٹوں پر ہم اپنے پسند کے فلمی گانے ریکارڈ کرتے تو دو گانوں کے درمیان وقفے میں وہ مانوس ٹر ٹر عجیب سماں باندھ دیتی۔ ابا جان نے ہی بتایا کہ صرف نر مینڈک ٹراتے ہیں تاکہ مادہ مینڈک انہیں ڈھونڈ سکے اور عملِ تولید کا آغاز ہو۔ اور ہر نوع کا مینڈک اپنے سُر میں ٹراتا ہے۔اگر آپ غور فرمائیں تو فلمی گانوں کا بھی بظاہر یہی مقصد ہوتا ہے۔ اس پر ہمیں ایک باریہ خیال آیا کہ کیا خبر انسانوں میں نطق کے ارتقا کی اصل وجہ یہی ہو۔ اور انسان تک آتے آتے صفتِ تکلم کی کلید مرد سے لے کر عورت کے حوالے کر دی گئی ہو۔ واﷲ اعلم باالصواب۔

برسات کے دنوں میں دیہاتی بڑے سانپ (جن میں سے بعض 10 فٹ لمبے ہوتے) ہمارے گھر لاتے۔ ابا زیادہ تر سانپوں کے بارے میں یہی کہتے کہ چوہے کھانے والے ہیں اور ہرگز زہریلے نہیں۔ ایک بار ہم سب نےضد کی کہ ایک زندہ سانپ جو ابا کے پاس تھا رسی سے باندھ کر دکھائیں۔ ابا نے ہماری خواہش پوری کردی۔ مگرسانپ ایک آدھ بار بل کھا کر اس رسی سے نکل گیا اور اس نے ان کے بازو پر کاٹ کھایا۔ ابا کو دیکھا تو وہ مسکرا رہے تھے۔ ہم نے پریشانی میں پوچھا اب کیا کریں، انہوں نے مجھ سے برنال منگوائی اور زخم پر لگا لی اور بڑے رسان سے بتایا کہ یہ سانپ زہریلا نہیں تھا۔مگر اس کے بعد یہ ہوا کہ ہمارے گھر میں ان تمام موذی جانوروں کا زندہ داخلہ بحکمِ امی جان بند ہوگیا۔ اگرچہ اس حکم کی خلاف ورزی بھی ہوتی رہتی ۔ ایک بار ہمیں بھنک پڑی کہ ابا کے پاس ایک بڑا زہریلا سانپ آیا ہے۔ ہم نےاصرار کیا کہ ہمیں اس کا زہر نکال کر دکھائیں۔ پہلے ابا نے اس سانپ کی کُچلیاں ہمیں دکھائیں جو اصل میں تھوک پیدا کرنے والے غدود ہوتے ہیں۔ آخر لوہے کا ایک گلاس منگوایا گیا اور اباجان نے اس سانپ کی گردن دبا کر اسکا منہ کھولا اور اسکے اوپر کے جبڑے کو گلاس کے کنارے کے ساتھ لگا کرجب دبایا تو ایک دو قطرے اس گلاس میں آ گرے ۔ اس کے بعد وہ گلاس مٹی میں گہرا دبا دیا گیا۔ ابا جان سے ہی پہلی بار معلوم ہوا کہ اکثر سانپوں کا زہر براہِ راست اعصاب کو شل کر دیتا ہے۔یہ میرے سامنے کی بات ہے کہ ایک دفعہ دو بچے ایک مومی لفافے میں ایک چھوٹا سا سیاہ رنگ کا سانپ لائے۔ ابا جان نے بعد میں بتایا کہ وہ سنگچورسانپ تھا، جو بے حد زہریلا ہوتا ہے اور مردہ نہیں تھا مگر hibernate کر رہا تھا، اس لئے ان بچوں نے مردہ سمجھ کر اُٹھا لیا۔

 اس بات کے کئی سال بعد ہم نے نوٹ کیا کہ ابا جان کے کمرے میں ایک چوکور شے پر کالا کپڑا پڑا ہوا ہے۔ ایک دن تجسس کے مارے ہم نے وہ کپڑا اُٹھایا تو حیران رہ گئے۔ وہ ایک شیشے کا بنا ہوا چوکور ڈبا تھا جس میں ایک تہائی ریت بھری تھی اور ریت پر آٹھ دس بڑے بڑے بچھو اپنی اولاد سمیت چہل قدمی کر رہے تھے۔ ہم سمجھے کہ آخر ابا جان موضوع کی یکسانیت سے تنگ آکر شاید اب بچھووں پر کام شروع کر رہے ہیں۔ پوچھا تو پتا چلا کہ انکا ایک دوست محقق ہے جو سؤٹزرلینڈ کا باشندہ ہے اور اس کو اپنی تحقیق کے لئے مقامی بچھو درکار ہیں۔ یہ خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ بچھو ابا جان نے کیسے اکٹھے کیئے تھے۔ پھر ان موذی جانوروں کا بین الاقوامی تبادلہ شروع ہو گیا۔ ابا جان کے پاس ایسی ڈاک آنے لگی جس میں محفوظ کیئے ہوئے مردہ مینڈک یا سانپ نیویارک، ٹورانٹو یا جرمنی کی تجربہ گاہوں سے آتے اور ابا جان ان کا مطالعہ کر کے بحفاظت واپس بھجوا دیتے۔

اباجان سال میں ایک بار collection کے لئے پاکستان کے کسی مخصوص علاقے کا چکر لگاتے۔ اکثر ان کے بی ایس سی کے شاگرد ان کے ہمراہ ہوتے۔ ایک بار وہ ضلع پنڈ دادن خان گئے تو ایک پولیس افسر نے ایک لڑکے کے ہاتھ میں ایٔر گن دیکھ کر اس سے اس کا لائسنس مانگ لیا۔ اس نے بہتیرا کہا کہ یہ ایٔر گن ہے اسکا لائسنس کہاں ہوتا ہے۔ انہوں نے پوچھا کیا شکار کرنے آئے ہو، جواب ملا، چھپکلیاں۔ پولیس کو یقین نہ آیا کہ اس علاقے میں کوئی اس مقصد کے لئے بھی آ سکتا ہے آخر بات تلخ کلامی تک جا پہنچی اور اس کو بمع دوسرے طلبأ کے پولیس نے حوالات میں بند کر دیا۔ یہ سارا معاملہ ابا جان کی غیر حاضری میں ہوا جو کہیں بازار وغیرہ گئے ہوئے تھے۔ جب واپس آئے تو دیکھا کہ سب شاگرد غائب ہیں۔ آخر پتہ چلا کہ وہ تو سب حوالات میں ہیں تب پولیس سٹیشن پہنچے اور تھانیدار کی منت سماجت کی پھر اس لڑکے سے معافی منگوائی تو معاملہ رفع دفع ہوا۔

بہت سال بعد کی بات ہے میں بغرضِ تعلیم جرمنی جانے کے لئے اسلام آباد سے گھر واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کھانے کی میز پر مذکورہ بالا مرتبان پڑے ہیں جن میں چھپکلیاں، مینڈک اور سانپ درجہ بدرجہ بند ہیں بلکہ اپنے اپنے محلول میں بے حس و حرکت تیر رہے ہیں ۔ امی ان دنوں میری بہن کے پاس جرمنی گئی ہوئی تھیں۔ امی سے فون پر بات ہوئی اور ابا جان کی خیریت کا پوچھا تو میں نے جواب میں یہ شعر پڑھ دیا

جب میکدہ چُھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید ۔۔۔۔ الخ۔

امی سمجھ گئیں ابا جان نہ صرف خیریت سے ہیں بلکہ ان کا تحقیقی مواد اب کھانے کی میز کی زینت بن چُکا ہے۔

ایک بار امی نے پرنسپل صاحبہ کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کیا کہ اس سال تقسیمِ اسناد کی تقریب کی مہمانِ خصوصی بانو قدسیہ ہوں گی۔ ان سے درخواست کی گئی جو انہوں نے کمال مہربانی سے منظور فرما لی۔ خیر امی ایک کرائے کی کار پر محترمہ بانو قدسیہ کے گھر ان کو لینے پہنچیں۔ ہمارا قصبہ لاہور سے کم و بیش سو میل کے فاصلے پر ہے۔ دورانِ گفتگو انہوں نے امی سے ابا جان کے متعلق استفسار کیا تو امی نے بتا دیا کہ وہ سانپوں وغیرہ کے محقق ہیں۔ بانو نے یہ بات گھر جا کر اشفاق احمد کو ، جو اس وقت پاکستان سائنس بورڈ کے صد ر تھے، بتا دی۔ کچھ دن گزرے تو اشفاق احمد کا خط ابا کو آیا کہ آپ پاکستان کے سانپوں پر ایک کتاب لکھیں جسے بورڈ شایع کرے گا۔ کتاب بڑی تقطیع پر چھپی۔ عنوان تھا، سرزمینِ پاکستان کے سانپ۔ اور کتاب چھپ کر آئی تو ڈاکٹر ناصر احمد خان پرویز پروازی صاحب نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ میں عنوان دیکھ کر سمجھا یہ کتاب پاکستان کے مولویوں کے بارے میں ہوگی اور بڑے اشتیاق سے پڑھنے لگا مگر یہ دیکھ کر قدرے مایوسی ہوئی کہ یہ تو بے ضرر سانپوں کے بارے میں ہے۔

 ابا جان نے پی ایچ ڈی کا تھیسس لکھا اور تمام تر ضروری کاروائی کے بعد پنجاب یونیورسٹی کو بھجوا دیا۔ کئی سال گزر گئے مگر اس تھیسس کی کوئی خبر نہ آئی۔ پتہ چلا کہ وہ تھیسس ابھی بیرونِ پاکستان ریفریز کو بھیجا ہی نہیں گیا۔ آخر جب بھیجا گیا تو ایک ریفری نے لکھا کہ میں تو سمجھتا تھا کہ ان کا اس فیلڈ میں اتنا کام ہے کہ یہ کم از کم پی ایچ ڈی تو ضرور ہونگے۔

جب 1999 میں ابا جان اور امی جان نے بادلِ ناخواستہ امریکہ ہجرت کا فیصلہ کیا تو یہ سوال پیدا ہوا کہ ابا کے ان سینکڑوں مردہ سانپوں، چھپکلیوں اور مینڈکوں کا کیا ہوگا؟ اور ہمارے زندہ بلوچستانی کچھوے (جانو جرمن ) کی دیکھ بھال کس کے ذمے ہوگی، جو ایک انتہائی گوشہ نشین اور لُدھڑ صفت جانور تھا، مگر اپنے اب و جد ڈائنو ساروں کی عظمت کا امین ۔ ہمیں اپنے نیم پالتو گرگٹ کی فکر نہ تھی کیوں کہ وہ سیلانی طبع تھا۔ کبھی اس درخت کبھی اس درخت ۔ جانو جرمن تو ایک کالج کے پروفیسر کو تحفے میں دیے دیا گیا۔ اور بقیہ متاع کے لئے گورنمنٹ کالج لاہور والے دو ویگنیں لے کر آ گئے ۔ سپردم بہ تو مایۂِ خویش را۔ تو دانی حسابِ کم و بیش را۔اور یہ ارادہ ظاہر کیا کہ وہ اس سے Herpetology museum کی نیو رکھیں گے۔

(ابا کی سائنسی خدمات جاننے کے لئے ذیل کے لنک سے معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں)

http://muhammadskhan.wildlifeofpakistan.com/profile.htm

http://muhammadskhan.wildlifeofpakistan.com/publications.htm


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments