یو ٹرن یا ٹرننگ پوائنٹ


کوئی سیاستدان سراپا خیرہے نہ کوئی سرتاپا شر۔ مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم نے اعتدال، توازن اور معقولیت کو خیر باد کہہ رکھا ہے۔ کسی کی خوبیوں کی تعریف مقصود ہو تو ساری دنیا کے محاسن اس کی ذات سے وابستہ کر کے اسے فرشتہ ثابت کرتے میں جت جاتے ہیں اور کسی کو معتوب ومغضوب ٹھہرانا ہو تو دنیا جہاں کی برائیاں اور خرابیاں اس سے منسوب کر کے شیطان بنا دیتے ہیں۔ اب وزیر اعظم پاکستان کے اسی بیان کو لے لیں جس میں انہوں نے یو ٹرن نہ لینے والے سیاستدان کو بڑا لیڈر ماننے سے انکار کرتے ہوئے عملی زندگی میں یو ٹرن کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔

اس بیان کے ردعمل میں بھی حسب روایت فوراًدو شدت پسندانہ رویے ہمارے سامنے آگئے۔ حامیان پی ٹی آئی اور محبان عمران خان بغیر سوچے سمجھے بھونڈے انداز سے اپنے لیڈر کے بیان کے دفاع میں شعلے اگلتی زبانوں کے ساتھ میدانِ عمل میں آگئے جبکہ دوسری طرف سیاسی مخالفین شمشیر بکف، منہ سے جھاگ اڑاتے عمران کے اس بیان کو پاکستانی سیاسی تاریخ کے سیاہ ترین بیانات میں شمار کر کے انہیں معتوب کرنے لگے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران کے مذکورہ بیان کا شد و مد سے دفاع وہ لوگ بھی کرنے لگے جو صرف ایک دن قبل نواز شریف کے قطری خط کے بیان کو سب سے سنگین یو ٹرن قرار دے کر ان پر زبانِ طعن و تعریض کے نشتر چلا رہے تھے۔ جو کام کل تک نواز شریف اور ن لیگ کے لیے باعث عار و ننگ تھا آج اچانک پی ٹی آئی اور عمران کے لیے نہ صرف جائز بلکہ راہنمائی کا سب سے بڑا اصول بن گیا تھا۔

جناب عمران خان پر یہ الزام تواتر سے لگتا آ رہا ہے کہ وہ ماسٹر آف یو ٹرن ہیں۔ انہوں نے خود بھی بہت سے موقعوں پر اپنے کیے گئے فیصلوں پر خطِ تنسیخ پھیر کر مخالفین کے نقطہء نظر کو درست ثابت کیا۔ اب ان کی حکومت کے سو دن مکمل ہونے پر ان کی طرف سے یہ بیان آیا کہ جو لیڈر یو ٹرن نہیں لیتا وہ بے وقوف ہے۔ حقیقی لیڈر کو زندگی میں کئی مقامات پر یوٹرن (اپنے فیصلوں پر نظرِ ثانی ) لینا پڑتا ہے۔ اگر یوٹرن سے ان کی مراد وقت و حالات کے مطابق اپنی سیاسی حکمت عملی پر نظرِ ثانی کر کے زیادہ بہتر، کامیاب اور قابلِ عمل منصوبہ بندی کرنا ہے یا یہ مقصد ہے کہ سیاستدان کو اپنے رویوں میں بے لچک نہیں لکچدار ہونا چاہیے اور کبھی بھی دو ٹوک اور فیصلہ کن ہٹ دھرمی سے کام نہیں لینا چاہیے تو ان کا یہ بیان بالکل درست ہے۔

ہم اس موقعے پر یہ اضافہ کریں گے کہ 2014 کے دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں کے ہنگام کتنے ہی ایسے مقامات آئے تھے کہ جب خان صاحب کو یو ٹرن لے لینا چاہیے تھا۔ اس سے انہیں اور ملک دونوں کو فائدہ ہوتا۔ اس کے برعکس اگر وہ یہ کہناچاہتے ہیں کہ ایک سیاست دان کو جھوٹا، مکار، چالاک، منافق، دوغلہ، فریب کار، بے ایمان، متلون مزاج، بد حواس، پل میں تولہ پل میں ماشہ اور قوت فیصلہ سے محروم ہونا چاہیے تویہ سراسر غلط اور گمراہ کن رویہ ہے۔

اس حوالے سے ہم خان صاحب اور ان کے حامیوں کو قائد اعظم کا یہ بصیرت افروز بیان سنائیں گے کہ فیصلہ کرنے سے قبل بے شک سو مرتبہ سوچو مگر فیصلہ کر چکو تو اس پر چٹان کی طرح قائم رہو خواہ قیامت ہی آجائے۔ قائد کی اپنی ذاتی اور سیاسی زندگی ان کے اس دل افروز و جگر سوز قول کی عملی تفسیر دکھائی دیتی ہے۔ مگر اس کے برعکس صورت حال ہو تو کس قدر بھیانک اور مایوس کن نتائج برآمد ہوں گے۔

جہاں تک ایڈولف ہٹلر اور نیپولین بوناپاٹ کا تعلق ہے تو بلاشبہ پوری دنیا میں ان کے چاہنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں مطلق العنان، توسیع پسند، سفاک اور خوں خوار قسم کے جنگجو تھے جنہوں نے دو کروڑ سے زائد افراد کو تہ تیغ کر دیا تھا۔ اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ ان دو حضرات سمیت چنگیزخان، ہلاکو خان، سکندر، دارا، یزید، تیمور لنگ وغیرہ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے یو ٹرن لے لیتے تو کروڑوں انسان بھی لقمہءاجل بننے سے بچ جاتے اور جغرافیے اور تاریخ کے دھارے بھی مختلف ہوتے۔

کسی نے کہا تھا کہ یو ٹرن لینے میں ہرج ہی کیا ہے، وہ تو بنتے ہی لینے کے لیے ہیں۔ یو ٹرن بے وقت نہیں بروقت لینے میں کامیابی ہوتی ہے۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں کے پاس ریاست کے وسیع اور ہمہ گیروسائل ہوتے ہیں۔ وہ انہیں بروئے کار لاکر کسی منصوبے کے ممکنہ فواں د و نقصانات پرخوب سوچ بچار کے بعد اس کا اعلان کریں تو اسے ایک صائب، دانشمندانہ اور بصیرت افروز فیصلہ کہا جائے گامگر آج اگر عمران پانچ سال بعد بہ ہزار خرابی و بسیاررسوائی اور اربوں روپے خرچ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچیں کہ پشاور میٹرو ایک ناقابلِ عمل منصوبہ ہے تو یہ ان کی سیاسی بے بصیرتی اوردوراندیشی کے شدید فقدان بلکہ ان کے ذہنی مریض ہونے پر دال ہو گا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ آدمی پہلا یو ٹرن چھوڑ کے ایندھن، توانائی اور قیمتی وقت خرچ کر کے کئی سو کلومیٹر دورجا کے یوٹرن لے۔

یوٹرن اگرحکمت، بصیرت، دانائی اور فہم و تدبر کا غماز ہے تو عمران خان ایک نہیں درجنوں یوٹرن لیں لیکن اگر وہ یوٹرن کی آڑمیں سادہ لوح عوام اور کروڑوں ووٹرز کو دکھائے گئے خوابوں اور آدرشوں سے دستبردار ہونے کے بہانے تراش رہے ہیں تو یہ پاکستان اور اہلِ پاکستان کی بدنصیبی ہوگی۔
دیکھتے ہیں عمران خان کا یہ بیان ان کا ایک روایتی یوٹرن ثابت ہوتا ہے یا سیاسی ٹرننگ پوائینٹ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).