گجرات میں تشدد انڈیا کی معیشت کا آئینہ دار کیوں؟


گجرات

ایک ہفتے تک جاری رہنے والے تشدد کے بعد مہاجروں کے خاندان فرار ہونے پر مجبور ہو گئے

اکتوبر میں انڈیا کی ریاست گجرات سے دسیوں ہزار لوگ فرار ہونے پر مجبور ہو گئے۔ بی بی سی کے نتن سری واستو نے ہمت نگر قصبے میں جا کر معلوم کرنے کی کوشش کی کہ وہاں ہو کیا رہا ہے۔

’مجھے آدھی رات کو بس پکڑنے کے لیے چھ میل تک بھاگنا پڑا۔‘ یہ الفاظ ہیں رام پیارے کے جو اس قصبے کی ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے۔

33 سالہ رام پیارے بس میں بیٹھ کر ریاستی دارالحکومت احمد آباد آئے اور وہاں سے ٹرین سٹیشن پہنچے، لیکن ساری ٹرینیں کھچاکھچ بھری تھیں۔ انھیں شمالی ریاست اترپردیش کی گاڑی ملنے میں آٹھ گھنٹے لگے۔

وہ اکیلے نہیں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 50 سے 80 ہزار لوگ گجرات سے بھاگ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ وہ تشدد ہے جو ایک ہفتے تک جاری رہا تھا۔ اس کی چنگاری ایک افواہ پھیلنے کے بعد بھڑکی کہ ایک مہاجر مزدور نے ایک 14 ماہ کی بچی کا ریپ کیا ہے۔

تشدد میں کوئی ہلاک تو نہیں ہوا لیکن اس سے وہ خوف پھیلا کہ ریاست میں کام کرنے والے اکثر مہاجر کارکن اپنے اپنے علاقوں کو جانے پر مجبور ہو گئے۔

تشدد تو ریپ کی افواہ کے بعد پھوٹا لیکن اس سے ریاست گجرات کی معاشی بےچینی کا بھی اظہار ہوتا ہے کیوں کہ وہاں مقامی تاجر اور کاروباری شخصیات مشکل میں ہیں اور بےروزگاری بڑھ رہی ہے۔ دوسری ریاستوں سے آنے والے مزدوروں کی وجہ سے تنخواہیں کم رہتی ہیں جس سے مقامی ناخوش ہیں۔

رام پیارے نے جونپور سے مجھے فون پر بتایا: ’میری تمام جمع پونجی خرچ ہو گئی۔‘ انھیں وہاں ابھی تک نوکری نہیں مل سکی لیکن انھوں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ آئندہ گجرات کا رخ نہیں کریں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ میں نے سوچا تھا کہ بال بچوں کو بھی گجرات لے جاؤں گا لیکن اب نہیں۔

ایسا کیوں ہوا؟

رام پیارے ہمت نگر کی ایک ٹائلیں بنانے کی فیکٹری میں کام کرتے تھے۔

انھوں نے 28 ستمبر کو ابھی ابھی رات کا کھانا کھایا تھا کہ باہر کچھ شور سنائی دیا۔ ’بانس کے ڈنڈوں اور سریوں سے لیس 20 سے زیادہ مقامی اندر گھس آئے۔‘ انھوں نے مزدوروں کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ گالیاں دیتے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ آئندہ کبھی گجرات نہ آنا۔

گجرات تشدد

50 ہزار سے 80 ہزار کے درمیان مزدور گجرات سے جان بچا کر بھاگے

وہ کہتے ہیں: ’اگر سکیورٹی گارڈ مجھے پچھلے دروازے سے نکال نہ دیتا تو وہ مجھے مار ڈالتے۔‘

گجرات وزیرِ اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست ہے اور اس نے خاصی معاشی ترقی کی ہے۔ یہاں کپڑے، زیورات اور سرامکس کی صنعتیں قائم ہیں جن میں غریب ریاستوں سے لاکھوں کارکن آ کر کام کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق گجرات کی چھ کروڑ آبادی کا دس فیصد باہر سے آئے ہوئے لوگوں پر مشتمل ہے۔

لیکن حالیہ برسوں میں گجرات کی ترقی کی رفتار سست ہوئی ہے۔ سنہ 2016 میں بڑے کرنسی نوٹوں پر پابندی نے بھی کاروباروں کو متاثر کیا ہے۔

انڈیا میں عام انتخابات ہونے والے ہیں اس لیے مودی مخالف جماعتوں نے لوگوں کی بےچینی کا فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے۔

ریاستی سیاست میں نوکریوں کا کوٹا مقرر کرنے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ 28 ستمبر کے تشدد سے قبل وزیرِ اعلیٰ وجے روپانی نے کہا تھا کہ وہ ایک مسودۂ قانون پر کام کر رہے ہیں جس کے تحت 80 فیصد نوکریاں گجراتیوں کو ملیں گی۔

آگے کیا ہو گا؟

مقامی میڈیا کے مطابق پولیس نے تشدد کے بعد 500 لوگوں کو گرفتار کیا ہے جن میں ایک رکنِ اسمبلی بھی شامل ہے۔ لیکن اس کے باوجود کشیدگی برقرار ہے۔ دو ماہ بعد بھی بہت سے مزدور ابھی نہیں لوٹے۔

جس کارخانے میں رام پیارے کام کرتے تھے اسے بلوائیوں نے آگ لگا دی۔ رام پیارے کہتے ہیں: ’ہم نے مقامیوں کی طرف سے پہلے کبھی اتنی دشمنی نہیں دیکھی تھی۔‘

انھیں اس بات کا صدمہ ہے کہ بلوائیوں میں ان کے جاننے والے بھی شامل تھے۔

مقامیوں نے بی بی سی کو بتایا: ’اگر آئندہ ایسی کوئی بات ہوئی تو ہم اپنی عزت کا تحفظ کرنے کے لیے قتل سے نہیں ہچکچائیں گے۔‘

گجرات تشدد

گجرات کی صنعتوں میں غریب ریاستوں سے مزدور آ کر کام کرتے ہیں

انھیں اس بات پر سخت غصہ ہے کہ مہاجروں نے ان کی نوکریوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ سبرکنتھا گاؤں کے سابق مکھیا راجندر سنگھ راٹھور نے بتایا: ’ہماری زمینیں چھن گئی ہیں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے 90 فیصد مزدور غیر گجراتی ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ باہر کے لوگوں کو نوکری دینا بری بات نہیں لیکن مقامیوں کو ترجیح ملنی چاہیے۔

ریاست کی صنعتی پالیسی کے مطابق فیکٹریوں میں 70 فیصد ملازمتیں مقامیوں کے لیے طے ہیں۔ تاہم بہت سے کارخانہ دار غیر مقامیوں کو فوقیت دیتے ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں وہ کم تنخواہ پر زیادہ محنت سے کرتے ہیں۔

تاہم گجرات کے وزیرِ داخلہ پردیپ سنگھ جڈیجا کے مطابق نوکریوں کے قانون کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی۔

’بعض جگہوں پر قانون شکنی ہوئی تھی لیکن ہم نے ان کے خلاف کارروائی کی ہے۔ جہاں تک باہر والوں کی بات ہے تو ان کی اکثریت جلد واپس آئے گی۔‘

تاہم سبھی کو ان سے اتفاق نہیں ہے۔

ماہرِ سماجیات پروفیسر گورنگ کہتے ہیں کہ گجرات میں عدم برداشت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ’چاہے یہ خوراک پر ہو، مذہب پر ہو یا معاشرے پر، گجرات میں عدم برداشت مسلسل چلی آ رہی ہے۔ یہ باہر سے نظر نہیں آتی لیکن بعض اوقات ایک معمولی واقعہ اسے منظرِ عام پر لے آتا ہے۔‘

مہاجر مخالف تشدد نے گجرات کے معاشرے میں پہلے سے موجود دراڑوں کو واضح کر دیا ہے۔

کرنسی نوٹ

بڑے نوٹ ختم کرنے سے گجرات کے کاروباروں پر اثر پڑا ہے

مہاجر مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے سے تعلق رکھنے والے شیام ٹھاکر کہتے ہیں: ’جو ہوا وہ بڑا ڈراؤنا ہے۔ ہزاروں لوگوں نے اپنے زیور اونے پونے بیچ ڈالے اور بھاگ کھڑے ہوئے۔ ریاست کو بھی فیکٹریاں چلانے کے لیے مہاجروں کی ضرورت ہے۔‘

بہت سے مقامیوں کو ٹھاکر کی اس بات سے اتفاق ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مہاجر مخالف رویوں سے خطرناک مثال قائم ہو گی۔

ایک مقامی ہسپتال کی نرس پائل ٹھاکر کہتی ہیں: ’قصورواروں کو سزا ضرور ملنی چاہیے، لیکن سب کو کیوں مجرم ٹھہرایا جائے؟ وہ لوگ یہاں روزی روٹی کے لیے آئے ہوئے ہیں، انھیں اس طرح سے نکال کر پھینکا نہیں جانا چاہیے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp