مذہب اور رواداری


صدیوں پہلے گلیلیو پر مقدمہ چلا کہ اس نے زمین کو سورج کے گرد گھما کر مذہب کی توہین کی ہے۔ گلیلیو نے عدالت میں اپنے گمراہ کن عقائد پر معافی مانگ لی اور تسلیم کر لیا کہ سورج زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔ عدالت سے بری ہونے کے بعد اس نے اپنے شاگرد کے کان میں کہا میرے معافی مانگنے کے باوجود گھوم تو اب بھی زمین ہی رہی ہے۔ یہ سرگوشی کتنی اونچی تھی کئی صدیاں گزرنے کے باوجودآج بھی ہمیں سنائی دے رہی ہے۔

ابن رشد کا نمازیوں کے تھوک میں لتھڑا چہرہ ہو یا عمر خیام پر جادو اور بازنظینی تقلید کا الزام یہ تاریخ کے ماتھے پر لگے ہوئے وہ کلنک کے ٹیکے ہیں جن سے سب ہی آنکھیں چراتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ مذہبی طبقہ خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو علم اور آگہی سے خوفزدہ نظر آتا ہے۔ کیا وہ خدا جس نے انسان کو دماغ اور شعور کا شرف بخشا علم بڑھنے پر انسان کو اپنی سلطنت کے لیے خطرہ محسوس کرنے لگتا ہے؟

اگر ہم کسی بھی مذہب کا آغاز دیکھیں تو وہ روشن خیالی کی انتہا پر نظر آتا ہے وہ آپ کو خداؤں پر سوال کی دعوت دیتا نظر آتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ جو تھیسز پیش کرتے ہیں کہ کمزور خدا نہیں ہو سکتا ڈوبنے والا یا فانی خدا نہیں ہو سکتا وہ ہر دور کے لیے ہے اور اسی سے گزر کر بندہ خدا تک پہنچ سکتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم نجی محفلوں میں روایات بیان کرتے ہیں کہ ایک قوم اس لیے تباہ کر دی گئی کہ اس کے پاس اتنا علم آ گیا تھا کہ وہ حضرت جبرائیل کی پو زیشن بتا سکتے تھے۔ اور زیادہ علم بھی تباہ کر دیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

اس کی اصل وجہ وہی ہے جو وڈیرہ شاہی نظام میں نظر آتی ہے کہ وہ اپنے علاقے میں سکول نہیں بننے دیتے کیونکہ عالم کو غلام بنانا مشکل ہے۔ جب تک مذہب رضاکاروں کے تحت رہتا ہے وہ پھلتا پھولتا ہے اس میں برداشت ہوتی ہے۔ وہ مخالف رائے کو ہنس کر برداشت کرتا ہے۔ جب مذہب کے پروہت پادری مولوی پیشہ ور ہو جاتے ہیں اور مذہب ایک جذبے سے بڑھ کر روزگار بن جاتا ہے تو انسان اس روزگار کو بچانے اور بڑھانے میں لگ جاتا ہے۔ ان علوم کی مخالفت شروع ہو جاتی ہے جو مذہبی چوہدراہٹ کے لیے خطرہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ جس معاشرے میں مذہبی طبقہ اقتدار کی راہداریوں میں آتا ہے وہاں سب سے پہلے سائنس کی مخالفت شروع ہوتی ہے تاکہ انسان چیزوں کا اصل سمجھ کر توہم پرستی سے باہر نہ آ جائے اور تعویز گنڈے اور دم درود کا کاروبار متاثر نہ ہو۔ دوسری چوٹ منطق اور فلسفہ پر پڑتی ہے کہ وہ بھی سوچ کی دعوت دیتے ہیں۔

انٹر نیٹ کے بعد معلومات کی بہتات ہے اور نئی نسل یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ آزاد کشمیر میں آنے والا زلزلہ فحاشی کی وجہ سے تھا وہ اس پہلا سوال یہ پوچھتے ہیں کہ پھر یہ زلزلہ ناروے سویڈن میں کیوں نہیں آتا۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ اس بات پر چپ نہیں کرتے کہ ’شش زیادہ سوال سے بندہ گمراہ ہو جاتا ہے ‘ بلکہ اگلے سوال پوچھتے ہیں۔ اور زیادہ سختی سے مذہب سے باغی ہو جاتے ہیں۔

میں ایک سادہ سا انجینیر ہوں اور زیادہ گہری باتیں نہیں جانتا مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ انڈسٹری پر کبھی زیادہ کمائی کا سیزن ہوتا ہے اور کبھی مندا ہوتا ہے تو جو فیکٹریاں مندے میں بند کر دیں وہ کمائی کے سیزن میں آسانی سے ان نہیں ہو سکتیں۔ اور جو مندے کے سیزن میں کم آمدنی یا زیرو منافع پر کام جاری رکھتی ہیں وہی ترقی کرتی ہیں اور زندہ رہتی ہیں۔
یہ بات مولوی کو آج سمجھنے کی ضرورت ہے یہ مندے کا سیزن ہے اب کاروبار کو مشنری جذبے سے چلا لو ورنہ سونے کی مرغی ذبح کرنے پر کل لوگ تم پر ہنسیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).