وزیر سیاحت کا رویہ عوام میں پکنے والے لاوے کی ایک جھلک ہے


گلگت بلتستان کے وزیر سیاحت فدا خان فدا کی طرف سے پی آئی اے کے عملے کے ساتھ بدسلوکی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائر ہونے پر پاکستان اور بیرونی ملک میں بحث جاری تھی کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے معاملے کا از خود نوٹس لے کر انہیں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا تو اس خبر کو گلگت بلتستان کے اخباروں نے شہ سرخی کے طورپر شائع کی۔ بنیادی طور پر صوبائی وزیر کے اس رویے پر دیگر لوگوں کی طرح ہمیں بھی اعتراض ہے مگر اس اعتراض کی بنا پر ہم ان کی مذمت کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ یاد رکھنا چاہیے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کا ائر پورٹ پر احتجاج نہ پہلی بار ہے اور نہ گلگت بلتستان کے لوگوں نے صرف پی آئی اے کے خلاف اس طرح احتجاج کیا ہے بلکہ وہ وقتا فوقتا اس طرح کے احتجاج کرتے رہے ہیں پیپلز پارٹی کے دور میں رحمن ملک جب وزیر داخلہ تھے تو ان کے ساتھ بھی سکردو میں اس قسم کا واقعہ پیش آیا تھا۔

اس لئے اس طر ح کے واقعات کی مذمت یا تعریف سے پہلے چند واقعات پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ پورا منظر واضح ہو۔ اس کے لئے شروع اس قومی ائرلائن سے ہی کرتے ہیں۔ ایک طرف اگر پی آئی اے کی طرف سے گلگت بلتستان ا ور ملک کے دیگر علاقوں کے درمیاں سفر کا دورانیہ اور کرایوں کے درمیاں موازنہ کریں تو حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، پی آئی اے کی اپنے ویب سائٹ کے مطابق اسلام آباد سے گلگت، سکردو اور لاہور کے لئے پروازوں کا دورانیہ برابر یعنی ایک گھنٹہ ہے جبکہ کراچی کے لئے پرواز کا دورانیہ دو گھنٹے کے قریب ہے مگر گلگت بلتستان کا سفر کرنے والوں کوکراچی کا سفر والوں سے بھی زیادہ کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

دوسری طرف ایک عام آدمی ایئر پورٹ پر تاخیر سے پہنچے تو اس کو بورڈنگ کارڈ جاری کرنے کے بجائے اس کو اگلی تاریخ کے لئے ٹکٹ لینے کے لئے کہا جاتا ہے اس کے ساتھ پر جرمانہ بھی عائد کیا جاتا ہے مگر پی آئی اے خود جہاز ملتوی کر دے تو اس کے ازالے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ خواہ وہ کتنا ہی مہنگا کرایہ ادا کے ائر پورٹ پہنچا ہو پی آئی والے اس کی ذمہ داری نہیں لیتے اور مزید سونے پہ سہاگہ یہ کہ ایسے مواقعوں پر احتجاج ہو تو کوئی ذمہ دار اور با اختیار شخص آ کر ان کی داد رسی کرنے کے بجائے کسی ماتحت ملازم کو بھیج کر انہیں بیوقوف بنانے کوشش کی جاتی ہے جس کی واضح مثال اس ویڈیو میں موجود ہے۔

وزیر صاحب سے گفتگو کرتا ہوا شخص اپنے آپ کو پروازوں کی آمد کے شعبے کا انچارچ بتا رہے ہیں۔ اس پر وزیر صاحب اس شخص کو دھکا دے کر آپریشن انچارچ کو بلانے مطالبہ کرتا ہے اس حوالے سے واقفان حال بناتے ہیں کہ وزیر صاحب لندن میں سیاحتی میلے میں پاکستان کی نمائندگی کرکے وطن پہنچنے کے بعد اپنے آبائی علاقے کو جانے والے تھے اس موقع پر ان کے ساتھ غیر ملکی سیاح بھی تھے اور کئی گھنٹے انتظار کے بعد جہاز ملتوی کرنے کی نوید سنائی گئی تو انہوں نے اپنے جیکٹوں کو آگ لگا کر منفرد طریقے سے احتجاج شروع کر دیا کیونکہ وہ ان غیر ملکی سیاحوں کے سامنے شرمندگی محسوس کر رہے تھے۔ ایسے میں ایک غیر متعلقہ شخص ان سے بات کرنے کے آئے تو غصہ آنا تو ایک فطری امر ہے۔

مگر اس کے باوجو د اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ وزیر صاحب کو ضبط کا مظاہرہ کرنا چاہے تھا۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ صرف پی آئی اے والے زیادتی نہیں کرتے بلکہ جس کو بھی موقع ملتا ہے گلگت بلتستان کے عوام کا خون چوسنے میں مصروف ہے۔ سپریم کورٹ نے پورے ملک میں موبائل بیلنس پرٹیکس کی کٹوتی معطل کر رکھی ہے مگر گلگت بلتستان میں یہ موبائل کمپنیاں صارفیں سے 10 فیصد ٹیکس وصول کر رہی ہیں اس سلسلے میں راقم نے چیف جسٹس آف پاکستان، چیرمین ایف بی آر، اور چیرمین پی ٹی اے سے نوٹس لینے کے لئے درخواست بذریعہ ای میل ارسال کر رکھی ہے مگر اس کا ابھی کوئی جواب نہیں آیا ہے۔

اگرچہ گلگت بلتستان کے اندار ایس کام والے کوئی ٹیکس نہیں لیتے مگر وہ صارف گلگت بلتستان سے باہر ہوتا ہے تو اس کو کال سننے کے لئے بھی ٹیکس ادا کرنا پڑنے کی بھی شکایت ہے۔ اسی طرح کیرئر ٹیسٹنگ سروس پاکستان نامی غیر سرکاری ادارہ جو اس وقت گلگت بلتستان میں سرکاری ملازمتوں کے لئے ٹیسٹ کا بندوبست کرنے کے لئے فیس اور درخواست جمع وصول کرتا ہے وہ بھی گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو غیر محسوس طریقے سے لوٹنے میں مصروف ہے۔ اس کا تجربہ راقم کو اس طرح ہوا کہ گزشتہ مہینے میں گلگت بلتستان انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے لئے انفارمیشن افسر کی پوسٹ کے لئے درخواست جمع کرائی اور ان کی طرف سے اطلاع کا انتظار کرتا رہا لیکن بعد میں پتہ یہ چلا ہو ٹیسٹ ہو بھی چکا ہے۔ جب یہ معاملے اس ادارے کے ذمہ دار شخص کے سامنے اٹھانے کے لئے ادارہ میں کال کیا تو فون اٹھانے والا اپنا نام تک بتانے کے لئے تیار نہیں ہوا اور کسی ذمہ دار آدمی سے بات کرانے کا مطالبہ کیا تو آگے سے جواب آیا کہ ہم ہر کسی کی کال منتقل نہیں کرتے۔

اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ راقم کی طرح کتنے لوگ ایس ایم ایس نہ ملنے کی وجہ سے ٹیسٹ میں شامل ہونے سے محروم رہے اگر کوئی قومی ادراہ تحقیق کرکے ان کے اس مجرمانہ غفلت کی وجہ سے ٹیسٹوں میں شامل ہونے سے رہ جانے والوں کی تعداد معلوم کرے تو اندازہ ہو جائے کہ ایسے لوگوں کی تعداد کتنی ہے۔ اور اس ادارے سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ آپ نے ان امیدواروں سے خط و کتابت کے لئے عارضی پتہ، مستقل پتہ، ای میل آئی ڈی اور فون نمبر سب لینے کے بعد صرف ایس ایم ایس پرکیوں اکتفاء کرتے ہیں اگر امیدوار سے موبائل گم ہو جائے یا اور کوئی خرابی کی وجہ سے امیدوار کو اطلاع نہ ملے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟

اور مزید یہ بھی پوچھا جائے کہ کیا صرف ایس ایم ایس بھیجنے کا نام سروس ہے؟ اس طرح گلگت بلتستان کے لوگوں بیوقوف بنانے کے واقعات کی فہرست بہت طویل ہے لہذا ہم مزید واقعات کو درج کرنے سے گریزکرتے ہوئے اتنا عرض کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام مسلسل بیوقوف بنانے کی وجہ سے وہاں کے عوام میں پکنے والے لاوے کا بروقت ازالہ کرنے کے لئے ضروری ہے ان کی بروقت داد رسی کی جائے کیونکہ صوبائی وزیر سیاحت کا کردار بزبان غالب مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی کے مصدق اپنی تمام تر قباحتوں کے باوجود اس لاوے کی ایک جھلک ہے جس کا ادارک نہ کیا جائے تو فائد ہ کسی کو نہیں ہوگا نقصان سب کا ہوگا۔

اس لئے عدالت عظمیٰ کے سربراہ جسٹس ثاقب نثار سے یہ امید کی جاتی ہے کہ صرف وزیر کی سرزنش کرنے پر اکتفا کرنے کے بجاے ان تمام ذمہ لوگوں سے جواب طلب کر سب کو سزا دیں گے تاکہ لوگوں کے اس طرح احتجاج کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ واضح رہے کہ مذکورہ بالا احتجاج کے وقت جہاز ملتوی کرنے کی وجہ موسم کی خرابی بتائی گئی توہم نے موسم کا حال جاننے کے لئے گوگل کیا تو گلگت کا موسم صاف تھا جس کا ہم نے سکرین شارٹ بھی لے رکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).