ٹرمپ، امریکہ اور غیرت شیرت!


امریکی صدر، جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے کل پھر اپنے ٹرمپ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستان کے بارے میں کچھ خرافات فرمائیں۔ یہ ان کی Stated Political Position ہے اور کافی عرصہ سے ہے۔ اسی سال، یکم جنوری کو بھی محترم امریکی صدر نے یہی کچھ فرمایا تھا، اور جب سال تقریبا ختم ہونے کو آ رہا ہے تو اسی قسم کی “گل افشانی” اک بار پھر کر دی گئی۔

اس سال کے شروع میں جنابِ ٹرمپ کا جواب، اس وقت کے وزیرِ خارجہ، جناب خواجہ آصف صاحب نے بذریعہ ٹویٹ ہی دیا تھا، اور اس مرتبہ بھی ٹرمپ صاحب کو جواب، ہمارے محترم وزیر اعظم، جناب عمران خان صاحب کے ساتھ ساتھ، وزیرِ خارجہ، جناب شاہ محمود قریشی صاحب نے بھی دے ڈالا۔

آپ جب، عمل کے جواب میں ویسا ہی ردعمل دیتے ہیں، تو یہ آپ کو عمل کرنے والے سے مختلف نہیں بناتا۔ میں اگر محترم وزیرِ اعظم صاحب کا مشیر ہوتا تو انہیں عرض کرتا کہ جناب، خارجہ پالیسی اور بین الریاستی معاملات ٹویٹوں سے نہ بنتے ہیں، نہ بگڑتے ہیں، نہ چلائے جاتے ہیں اور نہ ہی گرائے جاتے ہیں۔ بہت ہوا تو سوشل میڈیا کے ذریعے سے آپ، کم اور غیرسنجیدہ عناصر کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے ہی انہیں خوش کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں، جو کہ محترمی ڈونلڈ ٹرمپ صاحب اک لمبے عرصہ سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ تو لہذا، آپ محترم عمران خان بنیں، جو کہ ٹرمپ نہیں۔

سنجیدہ معاملات پر، سوشل میڈیا میں مغز نہیں، صرف اخروٹ کا چھلکا ہی ملتا ہے۔ فہم، دلیل اور ذہانت رکھنے والے چھلکے کو چبانے سے انکار کرتے ہیں، اور تھوڑی کوشش کر کے جاننا چاہتے ہیں کہ اس کے نیچے، اصل معاملہ کیا ہے۔ اکثریت، جو کہ ہمیشہ سے ایسی ہی رہی ہے، اسی اخروٹ کے چھلکے کو تربوز کا گودا سمجھ کر چباتے چلے جاتے ہیں، اور اپنے ذہین ہونے کا ثبوت بھی دیتے رہتے ہیں۔

امریکی صدر صاحب کی ٹویٹ کا کوئی سفارتی یا بین الریاستی اثر نہیں۔ سفارتکاری کی دنیا میں، بہت ہوا تو یہ Optics ہی کہلواتا ہے، جب کہ اصل معاملات امریکہ اور پاکستان کے مابین سرکاری اور فوجی بابو، موٹی اور پتلی فائلوں میں لکھے گئے باقاعدہ کاغذات (Formal Papers) کے ذریعہ سے ہی چلاتے ہیں۔ پالیسی بیانات کے حوالہ جات اگر جاننا ہوں تو سیاسی طور پر منتخب شدہ افراد سے زیادہ، کارِ ریاست مستقل طور پر چلانے والے طبقات اور ان کے بیانات پر نظر رکھا کیجئے اور ان دونوں کے درمیان فرق رکھنے کے لیے آپ کو بہت ذہانت کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یقین کریں۔

پھر ایسے کسی بھی قسم کے امریکی، بھارتی اور آج کل افغان بیان کے بعد بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ جب کچھ ویسا ہی جواب ہمارا کوئی سیاسی طور پر منتخب شدہ اہلکار داغتا ہے۔ پاکستان کا سیٹھ-میڈیا، جو سِول سماج کی بجائے، ریاست کے طاقتور اداروں اور لوگوں کا ازلی کاسہ لیس ہے، فورا ہی ہر موجودہ حکمران کے حق میں اس کی غیرت، قومی حمیت، جرات، دلیری اور “آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی” وغیرہ کے ڈھول پیٹنا شروع کر دیتا ہے۔ دنیا کی تیسری ذہین ترین پاکستانی عوام بھی اس ڈھول کی تھاپ پر ٹھمکے لگانا شروع کر دیتے ہیں اور یہ معاملہ ہر مرتبہ ہی کوئی دو تین دن تک چلتا ہے۔ اس کے بعد، راوی پھر چین ہی چین لکھتا ہے، تاآنکہ ایسی کوئی دوسری ٹپُوسی پھر نمودار ہو جاتی ہے، اور پھر وہی سیٹھ-میڈیا ہوتا ہے اور پھر وہی ذہین پاکستانی قوم کے ٹھمکے۔

ہم بلاشبہ و بےشک، تغیر کے ولی ہیں!

اب چونکہ کل سے سیٹھ-میڈیا کے ذریعے اور اسی سیٹھ-میڈیا میں کام کرنے، اور خوش قسمتی سے لاکھوں میں تنخواہ پانے والے، اینکر نما صحافی، یا صحافی نما اینکر، بجائے جانے والے اُس ڈھول کی تھاپ پر ناچ رہے ہیں جس کی دھن ہمارے ہاں کے طاقتور حلقوں نے بہت سوچ بچار کے بعد ترتیب دی ہے، تو کہنا ہے کہ دوستو: ٹرمپ، امریکہ نہیں۔ وہ امریکہ بالکل ویسے ہی نہیں، جیسے محترم عمران خان صاحب پاکستان نہیں۔ ٹرمپ امریکیوں کے سیاسی نظام کی پیچیدگیوں میں سے برآمد شدہ وہ فاتح ہیں، جیسا پاکستان کے سیاسی نظام کی پیچیدگیوں میں سے برآمدہ شدہ، جناب عمران خان صاحب ہیں۔

ٹرمپ کو سارے کا سارا امریکہ مت سمجھیئے، بالکل ویسے ہی جیسا کہ آپ چاہیں گے کہ بیرونی دنیا سارے پاکستانیوں کو “یو ٹرن” کے دیوانے مستانے مجنوں نہ سمجھیں۔

یہاں مقصد امریکہ کی وکالت نہیں۔ اپنے ملک اور اپنے لوگوں کی وکالت ہے۔ پاکستانیوں کو اک بہت/بہت طویل عرصہ اپنے حُب الوطنی اور حُب الاسلام کو تمام ملاوٹوں سے پاک ثابت کرنے کے لیے دوسری اقوام و مذاہب سے نفرت اور بغض رکھنے کی بنیادی شرط کی گھُٹی پلائی گئی ہے۔ جنہوں نے عام پاکستانیوں کو امریکہ، بھارت، اسرائیل اور دیگر مذاہب سے نفرت کی گُھٹی پلائی، وہ خود انہی، اور دیگر ممالک کے ساتھ اپنے ادارہ جاتی، ذاتی اور پھر اپنے خاندانی مفاد مسلسل کشید کرتے رہے، اور کر بھی رہے ہیں۔

راقم کا بنیادی مدعا بھی یہی ہے: عوام کو سیٹھ-میڈیا کے ڈھول کی پہلے سے ترتیب شدہ دھن پر دولے شاہ کے چوہے بن کر غیرت، حمیت، دلیری وغیرہ کی تھاپ پر ناچ ناچ کر ہلکان نہیں ہونا چاہئیے۔ اس لیے بھی کہ یہ رقصِ دیوانگی پورے اکہتر سال سے جاری ہے جس کا تازہ ترین منطقی نتیجہ جناب سالارِ ختم نبوتﷺ، فیلڈ مارشل خادم حسین رضوی صاحب کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔

کیونکہ، نفرت بہرحال تیزاب کی مانند جس برتن میں موجود ہوتی ہے، سب سے زیادہ نقصان اسے ہی دے رہی ہوتی ہے۔ میرے خیال میں پاکستان اور پاکستانیوں کا پہلے سے ہی بہت نقصان ہو چکا ہے۔ اب یہ سلسلہ رکنا چاہئیے۔

آپ نے مگر سیٹھ-میڈیا کے ڈھول پر ہی اگر ناچنا ہے تو آپ کی غیرت، حمیت وغیرہ کو اک ہلکا سا خیال یہ دیتا چلوں کہ 22 کروڑ آبادی والے ملک کا سالانہ جی ڈی پی 305 ارب ڈالر ہے، جبکہ 70 لاکھ کی آبادی رکھنے والی اک امریکی ریاست، ایروزونا کا سالانہ جی ڈی پی 319 ارب ڈالر ہے۔

ٹرمپ کو سارا امریکہ نہ سمجھئیے۔ دوسری اقوام اور لوگوں سے نفرت چھوڑئیے۔ امریکہ، مغرب اور باقی دنیا، بشمول اسرائیل سے جُڑنا سیکھئیے۔ معاشی، تعلیمی، سماجی اور معاشرتی فوائد حاصل کیجیے۔ اور اگر نہیں، تو آنے والا ہر وزیراعظم ہاتھ میں کشکول پکڑے “دے جا سخیا راہِ خدا” کی صدا دیتا ہوا قومی غیرت، حمیت اور دلیری کا پرچم بلند کرتا رہے گا۔

خالی ذہن کو، کھلی ذہنیت سے بدل دیجیے یا پھر بھیک مانگنے والی غیرت قبول ہے ڈارلنگز؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).