اب ہم رات ہو چکے ہیں
جب ہم دن تھے
تو کتنے روشن تھے
ہمارے ارد گرد
ٹھنڈے ٹھار سایوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی
دھوپ ہماری کھڑکیوں سے
سارا دن اندر جھانکتی تھی
اور شام سرمئی ہو کر بھی
تا دیر نارنجی رہتی تھی
اور رات بھی رات کب ہوتی تھی
چاندنی میں نہائی ہوئی
تاروں سے سجی ہوئی
الوہی خوابوں کی بشارت دیتی ہوئی
دیوی کی طرح ہوتی تھی
جو صبح تک ہمیں بے آواز لوریاں دیتی
اور کہانیاں سناتی تھی
اور ہم زمین پر سوتے ہوئے بھی
ایک آسمانی نیند میں کھوئے رہتے تھے
اور شفاف ترین روحوں کے ساتھ
ہر دن کا آغاز کرتے تھے
اب ہم رات ہو چکے ہیں
سر تا پا
بد رَو کے پانی جیسی چپ چپاتی گاڑھی سیاہ رات
سورج ہماری بالکونیوں میں جھانکنے کی زحمت نہیں کرتا
اور ہمیں بھی دھوپ
بدن اور روح کی تمازت کے لیے نہیں
صرف سولر انرجی کے لیے درکار ہے
چاند اور تارے ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتے
دن ہو یا رات کوئی فرق نہیں پڑتا
ایک مادر زاد برہنگی ہمارا لباس ہے
اور منافقت کی چادر ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے
نام نہاد جمہوریت کے نام پر
ہم الیکشن میں
ایسے لوگوں کو منتحب کرتے ہیں
جن کے ظاہر تاریک
اور باطن تاریک تر ہیں
روشنی اب ہمیں راستہ نہیں دکھاتی
بلکہ ہماری تیرہ بختیوں کو نمایاں کرتی ہے
اور ہماری
رُو سیاہیوں کا پردہ چاک کرتی ہے
اب ہم دن نہیں رہے
دن کے نام پر گالی بن چکے ہیں!
- مجھے یہ نظم نہیں لکھنی چاہیے تھی - 03/09/2023
- ہیلی کاپٹر - 27/08/2022
- مئی میں “دسمبر کی رات” اور کتابوں کی چھانٹی کا غم - 22/05/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).