اب ہم رات ہو چکے ہیں


\"naseerجب ہم دن تھے

تو کتنے روشن تھے

ہمارے ارد گرد

ٹھنڈے ٹھار سایوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی

دھوپ ہماری کھڑکیوں سے

سارا دن اندر جھانکتی تھی

اور شام سرمئی ہو کر بھی

تا دیر نارنجی رہتی تھی

اور رات بھی رات کب ہوتی تھی

چاندنی میں نہائی ہوئی

تاروں سے سجی ہوئی

الوہی خوابوں کی بشارت دیتی ہوئی

دیوی کی طرح ہوتی تھی

جو صبح تک ہمیں بے آواز لوریاں دیتی

اور کہانیاں سناتی تھی

اور ہم زمین پر سوتے ہوئے بھی

ایک آسمانی نیند میں کھوئے رہتے تھے

اور شفاف ترین روحوں کے ساتھ

ہر دن کا آغاز کرتے تھے

اب ہم رات ہو چکے ہیں

سر تا پا

بد رَو کے پانی جیسی چپ چپاتی گاڑھی سیاہ رات

سورج ہماری بالکونیوں میں جھانکنے کی زحمت نہیں کرتا

اور ہمیں بھی دھوپ

بدن اور روح کی تمازت کے لیے نہیں

صرف سولر انرجی کے لیے درکار ہے

چاند اور تارے ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتے

دن ہو یا رات کوئی فرق نہیں پڑتا

ایک مادر زاد برہنگی ہمارا لباس ہے

اور منافقت کی چادر ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے

نام نہاد جمہوریت کے نام پر

ہم الیکشن میں

ایسے لوگوں کو منتحب کرتے ہیں

جن کے ظاہر تاریک

اور باطن تاریک تر ہیں

روشنی اب ہمیں راستہ نہیں دکھاتی

بلکہ ہماری تیرہ بختیوں کو نمایاں کرتی ہے

اور ہماری

رُو سیاہیوں کا پردہ چاک کرتی ہے

اب ہم دن نہیں رہے

دن کے نام پر گالی بن چکے ہیں!

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments