معذور افراد کو ہمدردی نہیں، حقوق اور مواقع کی ضرورت ہے



ہم سب کولہو کے بیل ہیں۔ ہماری آنکھوں پر بھی انسانوں کو جانچنے ، پرکھنے اور کوئی بھی رائے قائم کرنے کے لئیے معاشرے کے خودساختہ رائج کردہ معیار کے کھوپے چڑھے ہوئے ہیں۔
ہم ساری ذندگی ایک دائرے میں گھومتے ہوئے ماہ و سال کی گنتی پوری کرتے ہیں۔ ہمارے ہاتھوں میں سماج اور ہمارے والدین کی دی ہوئی ایک لمبی ” چیک لسٹ” ہوتی ہے۔ جسے ” ٹک مارک” کرتے کرتے جوانی کی شام کر دیتے ہیں۔ پڑھائی میں اچھے گریڈز لانے سے لے کر اچھی نوکری کا حصول، گھر بسانے کے ارمان ، پھر اپنے بچوں کی اعلی تعلیم، پوش علاقے میں گھر، نئے ماڈل کی گاڑی ، خواہشات کا ایک لامتناہی سلسلہ۔۔۔۔
” کیونکہ ہم کولہو کے بیل ہیں ”
ہم میں سے کچھ لوگ اس دائرے سے باہر ایک محفوظ فاصلے سے اس کاروان زندگی کی چمک دمک، روانی اور کشش کو حیرت و حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ اس دائرے کا حصہ کیوں نہیں ہیں؟ کس نے ان کو باہر نکالا یا روسرے الفاظ میں اس دائرے میں آنے ہی نہیں دیا۔ صاحب، یہ وہ لوگ ہیں جو آپ کی طرح دو ٹانگوں پر چل نہیں سکتے۔ جو آپ کی طرح آنکھوں سے دنیا کی رعنائیوں کو نہیں دیکھ سکتے۔ جو آپ کی مدلل گفتگو سننے اور اس پر اظہار خیال کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اور کچھ جو زندگی کی تلخیوں سے بے خبر اپنی معصوم دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ جی ہاں، انہیں عرف عام میں ” معذور افراد ” کہا جاتا ہے
معذور افراد، اسپیشل پرسن، differently abled, افراد باہم معذوری، ہم عموما ان افراد کو انہیں الفاظ میں پکارتے ہیں۔
لیکن اگر بات کریں پاکستان کی 70% آبادی جو دیہات میں رہتی ہے۔ وہاں مندرجہ بالا افراد کو بڑی بےتکلفی کے ساتھ لولا، لنگڑا، اندھا، بہرہ، کانا، اللہ لوک، کہہ کے پکارا جاتا ہے۔ ناصرف پکارا جاتا ہے بلکہ بہت سی خصوصیات ان کے ساتھ منسوب کر دیتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے بزرگوں کو بھی یہی کہتے دیکھا ہے۔ دیہات میں سکول ندارد، والدین غم روزگار کے مارے لیکن غیرت ہے کہ الامان الحفیظ۔۔ ہمارے اپاہج بچے کی دو روٹی ہم پر بھاری نہیں ہے۔ اس نے اسکول جا کے کیا کرنا ہے؟ اس نے کونسی نوکری کرنی ہے پڑھ کے۔ ویسے بھی برادری والے باتیں کرتے ہیں۔ حافظ جی کہتے ہیں اس کو قرآن مجید حفظ کروا لو۔ اللہ والا ہے۔ اللہ کے کام لگا رہے گا۔
معذور لڑکی ہونے کی صورت میں خیالات کچھ مختلف ہوتے ہیں۔ ایک تو لڑکی اوپر سے معذور۔ سکول جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اپنی زندگی میں تو ماں باپ اولاد کی محبت سے مجبور کھلاتے پلاتے بھی ہیں کپڑے لتے کا بندوبست بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن راتوں کی تنہائی میں اپنے خدا سے یہ دعا ضرور مانگتے ہیں کہ اے اللہ ہماری زندگی میں ہی اس اپاہج بچی کو ” پردہ ” دے دینا ہمارے بعد اس کا کون دھیان رکھے گا؟ ان والدین کے خدشات غلط نہیں ہوتے۔ والدین کے علاوہ دنیا میں کوئی ایسا نہیں جو اس مستقل بوجھ اور ذمہ داری کو خوش دلی سے نبھا سکے۔ چاہے وہ لڑکی ساری عمر گھر کی باورچن، دھوبن ، ماسی، اور اپنے بہن بھائیوں کے بچوں کی آیا بن کر زندگی گزار دے۔ رہے گی وہ ایک ناگوار بوجھ۔ ایک حساس ذمہ داری۔ کیونکہ ان معذور لڑکیوں کو بطور بہو یا بیوی اپنے گھر لے جانے کا ظرف کسی میں نہیں ہوتا۔ اکا دکا مثالیں بہت ڈھونڈنے سے شاید مل جائیں۔

لیکن سچ کہوں تو مجھے ان باتوں سے کسی تعصب، نفرت یا حقارت کی بجائے کم علمی اور جہالت نظر آتی ہے۔ لیکن یہ جہالت کیونکر دور ہو؟
یہ درست ہے کہ ملکی سطح پر دیکھا جائے تو بہت سے اجتماعی مسائل ہیں جن کا تعلق براہ راست عوام اور ملی ترقی اور سالمیت کے جڑا ہوا ہے اور ان کا تدارک وقت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ غربت، بےروزگاری، دہشتگردی سے لے کر لوڈشیڈنگ، ماحولیاتی آلودگی، مستقبل قریب میں پانی کی نایابی جیسے مسائل تلواروں کی طرح ہمارے سروں پر معلق ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کے بظاہر کمزور اور نظر انداز کئے گئے طبقات کی فلاح و بہبود کے لئے بھی ہمارا معاشرہ اور حکمران جوابدہ ہیں۔ ان میں ” معذور افراد ” سر فہرست ہیں۔
لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہمیں پاکستان میں معذور افراد کی اصل تعداد کا علم ہی نہیں ہے۔ 1998 کی مردم شماری کے مطابق یہ کل آبادی کا 2.49 فیصد ہیں۔ پھر پتہ نہیں کون سی جادو کی چھڑی گھومی کے 2017 کی مردم شماری کے نتائج میں معذور افراد کی تعداد 0.48 فیصد رہ گئی۔ ماشااللہ!
معذور افراد کی تعداد میں آنے والی اتنی بڑی کمی کو طبی تاریخ کا کوئی معجزہ مت سمجھ بیٹھے گا یہ نتائج ہمارے اداروں کی نااہلی اور مدعے سے غیر دلچسپی کی ایک عمدہ اور تازہ مثال ہے
خیر ! ملک میں معذور افراد کے حقوق کے حصول کے لئے کام کرنے والی ملکی اور غیر ملکی تنظیمیں بین الاقوامی اعداد و شمار کی اوسط نکال کر ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں معذور افراد کی تعداد 10 -15 فیصد بتاتی ہیں۔ تاکہ اپنی مدد آپ کے تحت ان اعداد و شمار کو سامنے رکھتے ہوئے افراد باہم معذوری کی فلاح و بہبود کے لئیے کام کیا جا سکے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2