حسین نقی ۔ آزادی اظہار کی نہ دبنے والی آواز


عاصمہ جہانگیر آپ کن حالات میں عوام کا ساتھ چھوڑ کر چلی گئیں۔ آج ہر جانب سناٹا ہے۔ جرات اور سچائی دم توڑتی نظر آ رہی ہے۔ حقایق کو توڑ مڑور کے سامنے لایا جاتا ہے۔ عوام کے ذہنوں کو یکطرفہ پراپیگنڈہ سے متاثر کیا جا تا ہے۔ سچ کی آوازیں دن بدن نحیف ھوتی جا رہی ہیں۔ کہیں سے دبی دبی آواز آتی ہے خفیہ ہاتھوں نے میڈیا پر کنٹرول پا لیا ہے۔ تاریخ کی سخت ترین اور غیر قانونی سنسر شپ نافذ کر دی گئی ہے۔ ایک کونے سے دھیمی آواز برآمد ھوتی ہے سچ کا گلہ گھونٹنے کے لئے فرشتے سرگرمی سے کار بند ہیں۔ کہیں سے ڈری ڈری نحیف آواز نکلتی ہے غیرعلانیہ مارشل لا لگ چکا ہے۔ ہر کونے میں گفتگو جاری کہ اصل حکومت تو بڑے جج صاحب کی ہے۔ بحث کا موضوع کیا ملک میں جوڈیشل مارشل لا کا راج ہے۔ اپوزیشن ڈری ڈری تو عمرانی حکومت بھی دبی دبی۔ سول افسروں کی تو بات مت پوجھو فائل کو ہاتھ لگانے سے خوف کھانے لگے۔ بڑے جج صاحب کی ہر قدم پر توہین عدالت کی دھمکیوں اور تضحیک آمیز گفتگو سے ہر شخص پریشان۔
کئی دہایئوں سے حسین نقی کی دبنگ آواز بھی کوئی نہ دبا سکا۔ آمر ایوب خان ھو یا یحییٰ خان، ضیا الحق یا مشرف، کوئی حسین نقی کی جرات اور ہمت کو پسپا نہ کر سکا۔ سول حکومتیں انکی تحریر سے خوف زدہ۔ ہر قسم کے جابرانہ ھتکنڈوں کا جرات اور حوصلے سے مقابلہ کرتے رہے۔ سچ لکھتے رہے اور مسلسل لکھتے رہے، سچ لکھنے سے ایک قدم پیچھے نہ ہٹایا۔ 85 سال کو پہنچے۔ اظہار آزای، جمہوری آزادیوں اور انسانی حقوق کے لئے انکا سفر رکا نیہں۔ آمروں کی سختیاں اور پیرانہ سالی بھی انکی جرات اور بیباکی کو ماند نہ کر سکی۔
بڑے جج صاحب فرماتے ہیں کہ حسین نقی تم کون ھو، اونچی آواز میں مت بولو، اسے عدالت سے باہر نکالو۔ ان تضحیک آمیز الفاظ نے حسین نقی کا کیا بگاڑلیا۔ ایسے تحکمانہ الفاظ نے سقراط کے خلاف ججوں کی نفرت کی وجہ سمجھا دی۔
جج صاحب سے گذارش ہے کہ پاکستان میں آزادی تحریر و تقریر، جمہوری و انسانی حقوق، اور عدلیہ کی آزادی کی جدوجہد پر نظر ڈالنے کے لئے تھوڑا سا وقت نکال لیجئے آپکو پتہ چل جائے گا کہ حسین نقی کون ہے۔

عاصمہ جہانگیر آپ نے جانے میں بہت جلدی کر دی۔ عدالتوں کی کاروائی پر تنقیدی نظر کون رکھے۔ وکلا کے تنظیمیں خاموش، وکلا رہنما ڈرے ڈرے۔ صحافی تنظیمیں بے بس اور اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر۔ سیاستدان موقع پرستی کا شکار۔ عاصمہ جہانگیر آج آپ کی کمی بڑی شدت سے محسوس ھو رہی ہے۔ پاکستان کا ضمیر سو چکا. اسے جھنجھوڑ کر جگانے والا کوئی نظر نہیں آ رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).