امریکہ دنیا میں سب کا ہمسایہ ہے


امریکہ میں وسط مدتی انتخابات کے انعقاد کے ساتھ ہی امریکی سیاست اور نظم مملکت میں بہت بڑی تو نہی لیکن ایک نوعیت کی تبدیلی وقوع پذیر ہو گئی ہے۔ اور اس تبدیلی کی ہمارے واسطے اہمیت یہ ہے کہ امریکہ دنیا میں سب کا ہمسایہ ہے سو ہمارا بھی ہمسایہ ہے۔ ان انتخابات سے قبل صدر ٹرمپ کی جماعت ریپبلکن پارٹی کو سینٹ اور ایوان نمائندگان دونوں میں اکثریت حاصل تھی جس کے سبب سے ان کو قانون سازی اور بجٹ کی منظوری کے لئے بہت آسانی حاصل تھی۔

مگر حالیہ انتخابات کے بعد ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹس کو اکثریت حاصل ہو گئی ہے اور اس اکثریت کے بل بوتے پر وہ منصب صدارت کی جانب سے اٹھائے اقدامات کی ایوان میں چھان پھٹک کر سکتے ہیں۔ لیکن ریپبلکنز کو سینٹ میں بدستور اکثریت حاصل ہے کہ جس کے سبب سے صدر ٹرمپ کے لئے اعلیٰ حکام کی تقرریوں کی منظوری لینے میں حسب سابق مشکلات نہیں ہو گی۔ لیکن اب ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹس کے لئے ممکن ہو گا کہ نا صرف کہ وہ ایوان کی مختلف کمیٹیوں کے رکن ہوں گے بلکہ ان کمیٹیوں کا ایجنڈا طے کرنے کا اختیار بھی ان کو حاصل ہو گا۔

مثلاً امور خارجہ کی کمیٹی کے متوقع سربراہ مسٹر اینگل نے کامیاب ہونے کے ساتھ ہی یہ بیان دے دیا ہے کہ وہ امریکہ کی روس، شمالی کوریا اور سعودی عرب کے حوالے سے پالیسیوں کو جانچیں گے۔ بلکہ انہوں نے سعودی عرب کے حوالے سے معنی خیز بیان دیتے ہوئے کہا کہ ”اگر سعودی ہماری مدد کے خواہاں ہیں تو انہیں ان معاملات پر پیش رفت دکھانا ہو گی جو ہمارے لئے قابل تشویش ہیں“ اس بیان کے لب و لہجے سے یہ باآسانی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ڈیموکریٹس اب صدر ٹرمپ کو ہر معاملے میں من مانی نہیں کرنے دیں گے۔ بلکہ ایوان کی طاقت ووٹوں کی حرمت کی بنیاد پر ان پر ایک ایسی قدغن لگا دیں گے جو توازن اقتدار کا باعث ہو گی۔

خیال رہے کہ یہ بیان ان حالات میں دیا گیا ہے جب صحافی کے قتل اور شاہ سلمان کے واحد سگے بھائی شہزادہ احمد بن عبدالعزیز لندن سے ریاض بیرونی یقین دہانیوں کے بعد واپس پہنچ چکے ہیں اور رائل کونسل کا اجلاس بلانے کے لئے کوشاں ہیں کہ جو ولی عہد کے تقرر اور برطرفی کا اختیار رکھتی ہے۔ بہرحال صدر ٹرمپ نے بجٹ بھی انہی نمائندگان سے منظور کروانا ہو گا۔

اس لئے قانون سازی کے معاملات میں بھی ڈیموکریٹس کی رائے کو نظر انداز کرنا اب ممکن نہیں رہے گا۔ لیکن صدر ٹرمپ کے لئے اس سے زیادہ اہم معاملہ یہ ہے کہ امریکہ کے گزشتہ صدارتی انتخابات میں روس کی جانب سے مبینہ مداخلت کی خبروں نے امریکی سیاست میں ایک بھونچال کی کیفیت قائم کر دی ہے۔ اس کے حوالے سے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم ہوئی جو ملر کمیشن کے نام سے موسوم ہے اور اس نے ان معاملات کی نشاندہی انتخابی عمل کے دوران کر دی کہ جن کے سبب سے صدر ٹرمپ کے لئے ان معاملات کی نشاندہی سخت ناگواری کا باعث بن گئی۔

اور وہ اس کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کرتی رہی۔ ڈیموکریٹس نے اس مسئلے کو سلگتے ہوئے مسئلے کے طور پر زندہ رکھا ہوا ہے۔ اور وہ اس کامیابی کے بعد اس کے خواہش مند ہیں کہ ملر تحقیقات کا معاملہ اپنے انجام تک ضرور پہنچے۔ بلکہ انہوں نے اس کا واضح اظہار کیا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ نے اس کو راہ میں ہی گمراہ کرنے کی کوشش کی تووہ ان کے خلاف مواخذے کی تحریک تک لانے سے گریز نہیں کرے گی۔ ڈیموکریٹس کی ایوان نمائندگان میں اس کامیابی سے ان کے لئے یہ بھی ممکن ہو گیا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے مالی معاملات اور بدعنوانی کے الزامات پر بھی تحقیقات کی طرف بڑھ سکیں اور اپنی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے غصے میں آئے صدر ٹرمپ درحقیقت انہی مخمصوں میں الجھے ہوئے ہیں اسی سبب سے وہ اپنی پریس کانفرنس کے دوران سی این این کے جم اکوسٹا، پی بی ایس کے الکنڈور اور امریکن اربن ریڈیو کے اپریل ریان سے براہ راست الجھ گئے۔

بلکہ سی این این کے جم اکوسٹا پر تو وائیٹ ہاؤس پر داخلے پر پابندی بھی لگا دی گئی جسے عدالت کے حکم پر بادل نخواستہ عارضی طور پر واپس لینا پڑا۔ پابندیاں خبر روک سکتی ہیں لیکن تاثر تبدیل نہیں کر سکتیں۔ اس کی اس وقت سب سے بڑی مثال وطن عزیز خود ہے۔ عمران خان اپنے دیگر وزراء کے ہمراہ چین کی سرزمین پر پہنچے ایک تاثر کے ساتھ جس کو تبدیل نہیں کیا جا سکا۔ حزب اختلاف کے زمانے میں ان کا تاثر ایک ایسی شخصیت کے طور پر ابھر آیا جو سی پیک کے حوالے سے مثبت خیالات نہیں رکھتی۔

چینی اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ چین اور پاکستان کی ریاستوں کے مابین دوستی دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ اور وہ کسی غیر ذمہ دار رویے کے سبب سے اس دوستی میں فرق نہیں آنے دینا چاہیں گے۔ مگر پاکستان کی موجودہ حکومت سے ان کو تحفظات تھے اور ہنوز موجود ہیں۔ اسی سبب سے انہوں نے 2019 ؁ء میں پاکستان میں کسی نئے منصوبے میں سرمایہ کاری سے معذوری ظاہر کردی ہے۔ اس کے علاوہ چین سے تجارتی معاہدے کی تمام تفصیلات طے ہو چکی تھیں۔

گزشتہ ستمبر میں چینی وزیر اعظم نے پاکستان کے دورے میں اس پر دستخط کرنے تھے لیکن پاکستان کی سیاسی صورتحال کے سبب سے وہ تشریف نہیں لا سکے اور اب چین میں بھی اس معاہدے پر جا کر پھر دستخط کروانے کی بجائے انہوں نے اس کو معرض التواء میں ڈال دیا ہے۔ کیونکہ وہ ریاست پاکستان کے دوست ہیں۔ اس لئے پاکستانی اسٹیٹ بنک میں دس ارب یوآن رکھنے پر آمادہ ہیں اور چینی بینک بھی کسی ترجیحی سلوک کی بجائے عالمی معیارات کے مطابق قرض دینے کے لئے تیار ہے۔

لیکن پاکستان کی موجودہ حکومت کی قدر کو جانچنے کے لئے یہی کافی ہے کہ عمران خان کو گارڈ آف آنر تیسرے دن پیش کیا گیا جبکہ شنگھائی میں ان کا استقبال وہاں کے ڈپٹی میئر نے کیا۔ لیکن اس سب کے باوجود پاکستان کی معیشت کو سہارا ایک اور طرف سے بھی مل سکتا ہے۔ اگر ہم اس وقت خارجہ امور میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے کوئی مؤثر طریقہ کار اختیار کر لیں۔ امریکہ نے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ مگر اس بار اس میں استثنیٰ بھی دیا گیا ہے۔

ہمارے لئے بھارت کا معاملہ سب سے اہم ہوتا ہے اور وہ امریکہ کے استثنیٰ کی پالیسی کا حقدار قرار پایا ہے۔ پاکستان کو بھی امریکہ سے اسی نوعیت کا استثنیٰ حاصل کرنا چاہیے جو کہ ممکن بھی ہے۔ اگر نیت ہو تو اس استثنیٰ سے ہم اپنی توانائی کی ضروریات ایران سے پوری کر سکتے ہیں جبکہ اس کی خوراک اور ادویات کی ضروریات پاکستان پوری کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).