جشن میلاد کا آغاز کب ہوا؟ اور امیر دعوت اسلامی کا خطاب


کئی برس پرانا واقعہ ہے۔ بارہ ربیع الاول کا دن تھا اور ہم بمع اہل و عیال بمقام النور سوسائٹی بڑی اماں کے گھر با وضو اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ مغرب کی اذان کی آواز کان میں پڑتے ہی مسجد النور کا رخ کریں گے، جو گھر کے عین سامنے واقع ہے۔ بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والی اس مسجد کا سنگ بنیاد عراقی سفیر نے اپنے مبارک ہاتھوں سے رکھا تھا۔ جب مغرب کا وقت ہو جانے کے با وجود اذان کی آواز سنائی نہ دی تو مسجد کا رخ کیا۔

جیسے ہی مسجد میں داخل ہوئے، ایک افرا تفری کا عالم تھا اور ہڑبونگ مچی ہوئی تھی۔ وضو خانے میں وضو کے لیے ہجوم جمع تھا۔ مسجد کے اندر نگاہ دوڑائی تو دیکھا نماز پڑھائی جا رہی ہے، حیرت کے عالم میں ایک صاحب سے پوچھا : اذان تو ہوئی نہیں تو نماز کیسے شروع کر دی گئی؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اذان دے دی گئی ہے۔ ہم نے پھر وضاحت کی کہ گھر کے سامنے مسجد واقع ہے اور ہم کو تو آواز سنائی نہیں دی۔ ان صاحب نے فرمایا : لاؤڈ اسپیکر جلوس کے شرکاء اپنے ساتھ لے گئے تھے اور ابھی جلوس جشن میلاد کراچی کی سڑکوں پر منا کر مسجد لوٹا ہے۔ یہ سب سن کر بہرحال مروجہ جشن میلاد منانے کا کوئی خوش گوار تاثر ہم پر قائم نہیں ہوا۔

گزشتہ دنوں امیر دعوت اسلامی جناب الیاس قادری نے جشن عید المیلاد النبی منانے کے حوالے سے اپنے معتقدین و مریدین سے خطاب فرمایا ہے، جو سوشل میڈیا پر خوب سنا اور دیکھا جا رہا ہے۔ امیر دعوت اسلامی نے اپنے خطاب میں جو کچھ فرمایا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ چشن عید المیلاد النبی مناتے وقت حقوق العباد کا خصوصی اہتمام کیا جائے، نہ راستے روکے جائیں اور نہ سڑکیں بانس گاڑنے کے لیے کھو دی جائیں۔ نہ بلند آواز میں نعت شریف پڑھی جائے اور نہ تقاریر کی جائیں کیوں کہ اس سے شیر خوار، اسکول و مدرسے جانے والے بچوں کے علاوہ مریض بھی پریشان ہوتے ہیں اور سب کی نیند میں خلل واقع ہوتا ہے۔ امیر دعوت اسلامی نے یہ بھی فرمایا کہ جشن میلاد شریعت کے دائرے مں رہتے ہوئے منایا جائے۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا ’جہان پاکستان‘ میں کالم تحریر کرتے ہیں اور ’ہم سب‘ پر بھی باقاعدگی سے ان کے کالم شائع ہوتے ہیں۔ فیس بک پر ڈاکٹر صاحب کی ایک پوسٹ جشن میلاد کے حوالے سے نظر سے گزری، جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ بارہویں صدی عیسوی میں ایک ترک امیر نے جشن میلاد کا سب سے پہلے اہتمام کیا تھا۔ جشن میلاد کے آغاز کے حوالے سے کئی برس پہلے مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب ’اختلاف امت اور صراط مستقیم‘ میں جو پڑھا تھا، وہ کچھ یوں تھا کہ میلاد کی محفلوں کے وجود سے امت کی چھے صدیاں خالی گزری ہیں۔ محفل میلاد کا آغاز سب سے پہلے 604 ہجری میں سلطان ابو سعید مظفر اور ابو الخطاب ابن وحیہ نے کیا جس میں تین چیزیں بطور خاص ملحوظ خاطر تھیں۔

( 1 ) ۔ بارہ ربیع الاول کی تاریخ کا تعین۔
( 2 ) ۔ علما و صلحا کا اجتماع۔
( 3 ) ۔ اور ختم محفل پر طعام کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پر فتوح کو ایصال ثواب۔

غرض یہ کہ اب جب امت مرحومہ کی اکثریت جشن عید المیلاد النبی مناتی ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ عاشقان رسول جشن میلاد مناتے وقت اپنے اکابرین کی ہدایات پر اور خصوصی طور امیر دعوت اسلامی جناب الیاس قادری کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے، حقوق العباد کا خیال کریں گے اور شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے، جشن میلاد منائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).