حکومت کو معذرت قبول کرنے کا اختیار ہے؟


گذشتہ دنوں ناموس رسالت کے نام پر جو اودھم مچایا گیا آقائے دوجہاں جناب رسالت ماٰب صلی اللہ علیہ و سلم کی ناموس کو جس طرح اقوام عالم کے سامنے پیش کیا گیا، وہ تو ایک علیحدہ داستان ہے اور ایک طویل عرصے تک زیر بحث رہے گی۔ شرمناک بات وہ معاہدہ ہے اور مزید شرمناک معاہدے کی وہ شک ہے جس میں تحریک اس دوران مرنے والوں اور بے لگام مجمعے کے ہاتھوں لٹنے والوں سے معذرت کرتی نظر ائی۔ اپنے کارکنوں کے خلاف بنائے گئے مقدمات کی واپسی کی شرط منوائی مگر اپنے کارکنوں کے ہاتھوں مرنے والے بے گناہوں کو صرف معذرت پر ٹرخا دیا۔

معاہدے پر دستخط کرکے حکومت نے بھی اس بات کا ثبوت دیا کہ حکومت کو عوام کے جان مال کے لٹنے کا نہ کوئی افسوس ہے نہ کوئی فکر۔ عوام کے رہنما اور ہمارے حکمران عوام سے جھوٹ بولیں گے اور دھوکا دہی سے کام لیں گے تو ان کی تربئیت اور مزاج پر کیا کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ہم اپنے عوام کو کیا بتا رہے ہیں۔ جھوٹ اور دھوکا دہی ہی رہبری کی نشانیاں رہ گئی ہیں وہ بھی دین کے نام پر۔ دین کو گالم گلوچ سے پروموٹ کیا جارہا ہے۔ یہ بتایا جا رہا ہے کہ ڈنڈے ہاتھ میں ہوں تو آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ عددی برتری کی بنیاد پر جو بھی چاہیں کرلیں وہ اخلاقی طور پر بھی درست قرار پائے گا۔

وزیر اعظم نے قوم کے نامور دانشوروں سے خطاب فرماتے ہوئے صدیوں سے رائج اس مقولے کو ”سچی بات کرو تو ثابت قدم رہو“ کو غلط ثابت کردیا۔ آپ نے ان دانشورں کو بتایا کہ جو لیڈر یو ٹرن نہیں لیتا وہ لیڈر ہی نہیں۔ ہٹلر اور نپولئین اگر یو ٹرن لیتے تو شکست نہ کھاتے۔ آپ نے ثابت کر دیا کہ نپولئین اور ہٹلر آپ سے چھوٹے لیڈر تھے آپ نے ثابت کرنے کی پوری کوشش کی کہ موقع کی مناسبت سے اپنی کہی ہوئی باتوں سے مکر جانا بالکل برا نہیں بلکہ یہی اصل دانائی ہے۔ جس لیڈر کو مکرجانا نہیں آتا وہ لیڈر نہیں۔ یعنی لیڈر اگر جھوٹ نہیں بولتا اور وعدہ خلافی نہیں کرتا تو وہ لیڈر ہی نہیں۔ ہاں یو ٹرن اگر نواز شریف لے تو وہ پکا جھوٹ ہوگا۔ یعنی ہم مخالفوں کے نہ سچ کو برداشت کریں گے نہ جھوٹ۔ نہ ان کی ثابت قدمی کو مانیں گے نہ ان کے یو ٹرن۔

قوم کیا کرے؟ آپ کی آج کی باتوں کو مانے یا الیکشن کے وعدوں کو۔ الیکشن کے وعدوں کو تیسری دنیا کے لوگ عام طور پر سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ لیکن یہاں تووہ کام دھڑلے ّ سے کیے جارہے ہیں جن کے کرنے سے خودکشی کو ترجیح دی گئی تھی۔ بجائے ان کاموں سے بچا جاتا ڈھٹائی سے وہی سارے کام نہ صرف کیے جا رہے ہیں بلکہ ان کو اپنی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔ اور اس یو ٹرن کو ثواب عظیم سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ یوٹرن نہ لینے کو بے وقوفی کہا جارہا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ صدرمملکت اور گورنر بھی یو ٹرن کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ خادم رضوی کو بھی چین جاتے ہوئے دھمکی دے گئے کہ ریاست سے نہ ٹکرانا۔ خادم رضوی لیکن ریاست سے ٹکرا گیا اور اس کے کارندے مظلوم عوام کو اور مظلوم کرگئے۔ ایک عالم دین نے دین کے نام پر بے کس عوام سے کھلواڑ کیا۔ ایک وزیراعظم جسے مظلوم عوام اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں، نے یو ٹرن کے نام پر عوام کے زخموں پر نمک چھڑکا۔ خادم رضوی نے اپنے ہی کارندوں کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔ عمران خان نے اپنی حکومت بچانے کے لئے ریاست کی رٹ کو قربان گاہ کی بھینٹ چڑھا دیا۔ دونوں کے یو ٹرن قوم کے یقین اور اعتماد کو پستیوں کی اتھاہ گہرائی میں دھکیل گئے۔

آج وزیر مذہبی امور نے اعلان فرمایا کہ ہم نے تحریک لبیک کی معذرت قبول کرلی ہے۔ گزارش یہ ہے کہ حکومت کون ہوتی ہے معذرت قبول کرنے والی۔ حکومت کو معذرت قبول کرنے کا اختیار کس نے دیا ہے۔ مال و جان میرا لٹ گیا۔ لاکھوں لوگ مصیبت میں پھنسے رہے۔ ایک ماں اور بچہ ان کے ظلم کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اس بچے نے تو ابھی اپنی زندگی کا پہلا سانس ہی لیا تھا کہ اس کا سانس بند کردیا گیا۔ اس بزرگ کا کیا قصور تھا جو گھر سے اللہ کے پیغام امن کو پھیلانے تبلیغ پر نکلا تھا۔

کیا ان کے لوحقین نے حکومت اور دین کے ٹھیکیداروں کو معاف کیا۔ جو مریض ہسپتالوں میں نہ جا سکے اور سڑکوں پر ایڑیاں رگڑتے رہے۔ کیا ان لوگوں نے آپ کو معاف کردیا۔ جن بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی جن کے امتحانت میں خلل پڑا، انھوں نے کیا آپ کو معاف کردیا۔ اور کیا ان ججوں اور جرنیلوں نے بھی آپ کی معذرت قبول کر لی ہے۔ کیا حکومت کو یہ اختیار ہے کہ وہ ایک مخصوص طبقے کو باقی ماندہ عوام کے جان و مال سے کھلواڑ کی کھلی اجازت دے سکے؟ وہ قتل وغارت بھی کریں اور صرف معذرت پر معاف کر دیے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).