ارزاں ہے وطن کے سپوتوں کا لہو


گذشتہ دو ہفتوں سے پاکستان اور برادر ہمسایہ ملک افغانستان کے تعلقات سخت سفارتی تناؤ کا شکار ہیں۔ معاملہ ہی ایسا سنگین نوعیت کا ہے جس نے مضبوط برادرانہ تعلقات میں دراڑ ڈال دی ہے۔ افغان شہر جلال آباد کے پولیس چیف داؤد خان جو نجی مصروفیات کی بنا پر کابل میں موجود تھے، کو اغوا کر لیا گیا۔ یہ خبر افغان صدارتی محل پر بجلی بن کر گری۔ افغان صدر اشرف غنی نے فوراً وزیراعظم عمران خان کو فون کر کے معاملے کی سنگینی کا احساس دلایا۔

چند دن لا پتہ رہنے کے بعد داؤد خان کی لاش پشاور سے ملی۔ اس خبر کا سننا تھا کہ افغان صدر نے پاکستان کے خلاف سخت بیانات دینے شروع کر دیے، بھارتی میڈیا جو ایسی پاکستان مخالف خبروں کی ٹوہ میں رہتا ہے، فوراً پاکستان کے دہشت گرد ریاست ہونے کا راگ الاپنا شروع کر دیا۔ افغانستان نے اپنی فوجیں پاکستانی سرحد پر جمع کرنی شروع کر دیں۔ اغوا اور پھر قتل ہونے والا شخص کوئی عام آدمی نہیں تھا، ایک اہم افغان شہر کا پولیس چیف تھا۔

افغان صدر اشرف غنی نے آئی ایس آئی کا نام لے کر واویلا کرنا شروع کر دیا۔ وزیر اعظم کی جانب سے تحقیقات کی یقین دہانی کے باوجود سرحدوں پر لگی آگ ٹھنڈی ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ دوسری جانب صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے لائن آف کنٹرول پر گولہ باری شروع کر دی اور پاکستان کو شدید مشکل میں ڈال دیا۔ امید کی جاتی ہے کہ جلد ہی امریکی صدر صورتحال میں مداخلت کریں گے اور اپنے وزیر خارجہ کو دونوں ملکوں کے دورے پر بھیج کر حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

خاطر جمع رکھییے صاحب۔ مندرجہ بالاواقعات عین فرضی ہیں لیکن یقین کیجئیے کہ اگر خدانخواستہ کبھی ایسا سانحہ ہوا تو اس کے بعد پیش آنے والے واقعات میں شاید زیادہ فرق نہ ہو گا۔ المیہ لیکن یہ ہے کہ اس کے بالکل الٹ واقعہ پیش آیا لیکن ہماری جانب سے ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ پشاور کے ایس پی طاہر خان داوڑ جو نجی تعطیل پر اسلام آباد میں تھے، انہیں اغوا کر کے براستہ جہلم، میانوالی، بنوں اور وزیرستان افغانستان لے جایا گیا، جہاں دو ہفتے بعد ان کی لاش ملی۔

ان دو ہفتوں کے دوران پاکستانی حکومت، افواج، پولیس، وزارت داخلہ و خارجہ، یا کسی بھی اہم ادارے کے جانب سے نہ تو کوئی تحقیقات کی گئیں، نہ کوئی کمیٹی بنی اور نہ ہی کو باضابطہ بیان جاری کیا گیا۔ مظلوم ایس پی کی فیملی کو طفل تسلیاں دی جاتی رہیں۔ اس دوران وزیر اعظم کے معاون خصوصی اور ترجمان افتخار درانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اغوا کے واقعے کی سختی سے تردید کی، اور سوال کرنے والی میزبان کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا کہ آپ کو ہزاروں میل دور بیٹھے کیسے پتا ہے؟

خیبر پختونخواہ اور اسلام آباد میں ہماری حکومت ہے اور میں آپ کو حکومتی ترجمان کو طور پر بتا رہا ہوں کہ طاہر خان اغوا نہیں ہوئے، صرف کچھ دن کے لئے ان کا رابطہ کٹ گیا تھا، اور اس وقت وہ واپس اپنی فیملی کے پاس پشاور پہنچ چکے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ گفتگو 28 اٹھائیس اکتوبر کو کی گئی۔ کیسے اس بات پر یقین کیا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم کے ترجمان پولیس سے پوچھے بغیر انتہائی ذمہ داری کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں۔ کیا انہوں نے پولیس سے چیک نہیں کیا تھا؟ کیا مناسب نہیں تھا کہ وہ خود طاہر خان سے بات کر کے ایسا بیان دیتے؟ اور ظاہر ہے کہ اگر وہ چیک کرتے تو انہیں صورتحال کا پتا چلتا۔

لاش ملنے کے بعد اس کی حوالگی کے موقع پر افغان رویہ قابلِ مذمت تھا جنہوں نے لاش پاکستانی حکومت کے حوالے کرنے کی بجائے پختون تحفظ موومنٹ اور قبائلی عمائدین کا انتظار کرنا اور اگلے روز میت ان کے حوالے کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔ اس کے بعد بھی وزیر اعظم آفس خاموش رہا، اور اگلے روز ایک ٹویٹ کی ذریعے عوام کو آگاہ کیا گیا۔ وزیر مملکت برائے داخلہ شہر یار آفریدی نے اپنی اور اپنے اداروں کی ذمہ داریوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے افغان حکومت پر تنقید کی اور کہا کہ سرحد پار پٹرولنگ کا میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے اغوا کاروں کو ٹریس نہیں کیا جا سکتا۔

اس موقع پر انہوں نے سیف سٹی پراجیکٹ کے کمیروں کی خامیوں کی نشاندہی کر کے ملک دشمن عناصر کو خوشخبری دی کہ ہمارے کیمرے آپ کی اور آپ کی گاڑیوں کی نمبر پلیٹوں کی پہچان سے قاصر ہیں لہذٰا پریشان ہونے کی ضرورت چنداں نہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ آپ اپنے اداروں کی استعداد اور اپنے انفراسٹرکچر کا موازنہ افغانستان سے کریں گے؟ سرحد پار پٹرولنگ نہیں، مان لیا۔ لیکن آپ کے ملک میں تو متعدد ادارے موجود ہیں۔ اسلام آباد سے جہلم، میانوالی، بنوں اور وزیرستان کے راستوں پر پنجاب پولیس، فوج، ایف سی، لیویز، خاصہ داروں اور خیبر پختونخواہ پولیس سمیت متعدد اداروں کی بیسیوں چیک پوسٹس آتی ہیں۔

کیا آپ کے اداروں نے اپنی ذمہ داری پوری کی؟ اور کیا فوج کے علاوہ یہ سب ادارے آپ کے ماتحت نہیں؟ کیا یہ مناسب نہیں کہ آپ اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکامی پر استعفیٰ دے دیں؟ کیا ابھی بھی وقت نہیں آیا کہ وزیراعظم ایک کل وقتی وزیر داخلہ کی تعیناتی کریں؟ ہم اپوزیشن میں ہوں تو ایک ٹرین حادثے پر وزیر ریلوے کا استعفیٰ مانگتے ہیں۔ ہم ن لیگ کے دور میں وزیر خارجہ نہ ہونے کا رونہ بھی روتے رہتے ہیں۔ ہم ہالینڈ کے وزیر اعظم کے سائکل پر دفتر جانے کی بھی مثالیں دیتے ہیں۔ حکومت میں آتے ہی ہماری یادداشت چلی جاتی ہے اور ہم بھی وہی کرنے لگ جاتے ہیں جو ہمارے پیشرو کرتے تھے۔

ایس پی طاہر خان داوڑ ضلع بنوں کے پولیس چیف اس وقت تھے جب دہشت گردی اپنے عروج پر تھی۔ انہوں نے ضلع سے دہشت گردوں کا صفایہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ شاید اسی وجہ سے انہوں نے سرحد پار اپنے لئے بہت سی دشمنیاں مول لے لیں َ۔ ان پر دو خودکش حملے ہوئے، ایک میں وہ شدید زخمی بھی ہوئے۔ سوال یہ ہے شہید افسر کے بچے کسی کے ہاتھوں پر اپنے باپ کا لہو تلاش کریں۔ اس ریاست کے ہاتھوں پر جس کی حفاظت شہید نے مرتے دم تک کی لیکن وہ اس کی حفاظت نہیں کر سکی۔

یاد رہے کہ طاہر خان کسی جنگ میں یا کسی مقابلے میں شہید نہیں ہوئے۔ انہیں اسلام آباد جیسے شہر سے اغوا کیا گیا اور افغان سرحد عبور کرنے تک ہمارے ادارے سوتے رہے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ ایسا بادی النظر میں کسی دہشت گرد تنظیم نے بھی نہیں کیا، اب تک کی تحقیقات اور آی ایس پی آر کے بیان کے مطابق اس کے ڈانڈے افغان خفیہ ایجنسی سے ملتے ہیں۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی دنیا کی نمبر ون ایجنسی ہے۔ کیوں نہ آج سے یہ تمغہ این ڈی ایس کے سینے پر سجا دیا جائے جو دن دیہاڑے اتنی صفائی سے واردات کرتی ہے کہ ہمارے متعدد بیسیوں اداروں کو بھنک بھی نہیں پڑتی۔ واقعات کی اس پوری کڑی میں سب سے قابلِ مذمت رویہ حکومت کا ہے جسے آخری وقت تک معاملات کی سنگینی کا ادراک نہیں ہوا اور افتخار درانی ایسے مسخرے بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کی بھد اڑواتے رہے۔

طاہر خان داوڑ کی بد قسمتی یہ بھی تھی کہ ان کا تعلق پولیس کے قبیلے سے تھا۔ پاکستان میں پولیس وہ ریاستی ادارہ ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں۔ مرنے کے لئے سب سے آگے، وسائل نہ ہونے کی حد تک محدود اور اگر کوئی سانحہ ہو جائے تو سب آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ کیا ہم بھول گئے کہ ڈی چوک اور فیض آباد کے دھرنوں میں مرنے کے لئے پولیس افسر ہی آگے تھے، لیکن کیا ہوا ان مقدمات کا جو ان پر تشدد کرنے والوں پر ہوئے تھے؟ تصور کیجیے کہ طاہر خان ایس پی نہیں کرنل طاہر خان داوڑ ہوتے۔ افغان ایجنسی بھی ان کا اغوا کرتے ہوئے دس بار سوچتی اور اگر ایسا کر ہی بیٹھتی تو گمان اغلب ہے کہ سرحد نہ پار کر سکتی۔ لیکن پرسہ دیجئیے پولیس کے بد قسمت سپوتوں کا۔

اب جب کہ یہ سانحہ رونما ہو ہی چکا ہے، کیا امید کی جا سکتی ہے کہ ریاست پاکستان اپنے جری سپوت کو اغوا و قتل کرنے والوں کا پیچھا کر کے انہیں کیفر کردار تک پہنچائے گی؟ ابھی تک ریاستی سطح پر اس سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا کہ کوئی خوش گمانی وابستہ کی جا سکے۔ خاکِ وطن کی حرمت کا علم اٹھانے والے یونہی مٹتے رہیں گے، اور ہر حکومت آنیاں جانیاں دکھا کر اس وقت کا انتظار کرتی رہے کہ جب لوگوں کو کیس بھول جائے یا کوئی نیا سانحہ رونما ہو جائے تا کہ لوگ پچھلا واقعہ بھول جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).