پشاور کے صحافی پر تیزاب پھینک کر انھیں ہلاک کرنے والا مبینہ ملزم 28 برس بعد گرفتار


28 سال پہلے پشاور میں تیزاب پھینک کر نوجوان صحافی منصور خان کو ہلاک کرنے کے الزام میں مفرور ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

سنہ 1990 میں نوجوان صحافی منصور خان پر پشاور یونیورسٹی کے حدود میں ان کے گھر میں نا معلوم ملزمان نے داخل ہوکر تیزاب ڈال دیا تھا۔ وہ اس وقت پشاور میں انگریزی روزنامہ ‘دی ڈیموکریٹ’ کے نمائندے تھے۔

پشاور کے روزنامہ مشرق میں اس واقعے کے بارے میں 28 جون 1990 میں شائع خبر کے مطابق تیزاب پھینکنے سے صحافی کا چہرہ، جسم شدید زخمی اور ایک آنکھ ضائع ہوگئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

طاہر داوڑ کون، انھیں دھمکیاں کیوں ملتی تھیں؟

اسلام آباد سے غائب ہونے والا پولیس افسر کہاں ہے؟

وہ کچھ دن پشاور کے خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں زیر علاج رہے تھے لیکن بعد میں ان کو علاج کے لیے لندن لے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

اس وقت چھپنے والی خبروں کے مطابق جب انھیں اس غرض سے اسلام آباد ائیرپورٹ لے جا یا گیا تو وہ ائیرپورٹ ہی میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگئے۔

منصور خان کے وکیل مسرور خان نے بی بی سی کو ملزم کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ملزم سہیل پچھلے 28 برس سے مفرور تھا۔

انہوں نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس کیس کے لیے اس وقت ایک جوائنٹ انوسٹیگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بھی بنائی گئی تھی جو اب دوبارہ اسی کیس میں تحقیقات شروع کرے گی۔

انہوں نے بتایا کہ ملزم نے رواں برس اکتوبر کے مہینے میں منظر عام پر آکر عدالت میں ضمانت کے لیے درخواست دی تھی جو منگل 20 نومبر کو پشاور سیشن کورٹ کی جانب سے مسترد کر دی گئی ہے اور پشار یونیورسٹی کی کیمپس پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا۔

کیمپس پولیس سٹیشن کے اہلکار عرفان نے بی بی سی کو بتایا کہ انہوں نے ملزم سہیل خان کو منگل کو اس وقت گرفتار کیا جب ان کی ضمانت عدالت کی طرف سے مسترد کی گئی۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملزم اتنے برسوں تک کہاں پر تھا، تو انہوں نے بتایا کہ یہ کیس سنہ 1990 کا ہے اور تفتیشی ٹیم کی ملزم سے تفتیش کے بعد ہی مزید تفصیلات سامنے آئیں گی۔

اہلکار کے مطابق ملزم کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302,449 اور 34 کے تحت مقدمہ درج ہے۔

ہلاک ہونے والے صحافی منصور خان کے چھوٹے بھائی منظور قادر نے بی بی سی کو بتایا کہ اتنے برسوں تک وہ یہی انتظار کر رہے تھے کہ حکومت کب ان کے بھائی کے قتل میں ملوث ملزمان کو پکڑے گی۔

‘آخر کار بھائی کے قتل میں ملوث ملزم کو پکڑا گیا ہے اور ہمیں امید ہے کے ہمیں اور میرے بھائی کو انصاف ضرور ملے گا۔’

منصور خان دی ڈیموکریٹ اخبار کے بیورو چیف بننے سے پہلے مختلف بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ بھی کام کر چکے تھے۔

اس وقت ان کی تعزیت کے لیے پاکستان اور دنیا بھر سے تعزیتی پیغامات بھی بھیجھے گئے تھے۔ بینیظیر بھٹو سمیت پاکستان کے اور افغانستان کی سیاسی شخصیات نے بھی تعزیتی پیغامات بھیجے تھے۔

بی بی سی کی طرف سے بھی اس وقت پشتو سروس کے سربراہ گورڈن کی طرف سے خط لکھا گیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بی بی سی کبھی کبھی منصور خان کو تبصرے کے لیے انٹرویو کرتے تھے اور خط میں ان کے تجزیے کی تعریف بھی کی گئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp