یو ٹرن یااباوٹ ٹرن



آج کل ملک میں محترم عمران خان کے یوٹرن سے متعلق بیان کا شوروغوغا ہے۔ان کا فرمانا ہے کہ یوٹرن بڑے رہنماوں کی نشانی ہے اور اہداف حاصل کرنے کے لیےیو ٹرن لینا پڑتا ہے۔ اب پوری تحریک انصاف ان کے بیان کے دفاع میں مشغول ہے اور یوٹرن کی افادیت میں آسمان کے قلابے ملا رہی ہے۔ تحریک انصاف میں یہ خوبی موجود ہے کہ وہ غلط بات کا بھی اس عمدگی سے دفاع کرتے ہیں اور میڈیا میں بھی اس کے حق میں اتنا چرچا ہوتا ہے کہ وہ صحیح لگنے لگ جاتی ہے۔ جھوٹ کو اتنے تواتر سے اور اعتماد سے بولا جاتا ہے کہ میرے جیسے سادہ دل اسے سچ سمجھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل یہی صورتحال ایم کیو ایم کو درپیش تھی الطاف حسین کوئی بیان جڑ دیتے اور پھر پوری پارٹی اس کے دفاع میں لگ جاتی اور سیاہ کو سفید ثابت کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی۔ اب یہی مشق تحریک انصاف میں جاری ہے۔
بات ہو رہی تھی یو ٹرن کی ، میرے پاکستان تحریک انصاف کے ایک دوست نے کہا کہ اگر کہیں جاتے ہوئے آگے دیوار آجائے یا راستہ بند ہو تو آپ کیا کریں گے۔ عرض کیا بھائی اگر رہنما کو یہ نہیں پتہ کہ آگے راستہ بند ہے تو وہ رہنمائی کے قابل کیسے ہو سکتا ہے ۔منزل کا تعین اور راہ متعین کرنا رہنما کا کام ہے۔ منزل پر پہنچنے کے لیے اگر راستے میں کوئی رکاوٹ نظر آئے تو وہ اس کو کسی بھی طور عبور کرتا ہے یا کوئی اور راہ تلاش کرتا ہے لیکن یوٹرن لے کر واپس آجانے سے تو منزل پر کسی طور نہیں پہنچا جا سکتا۔ یا پھر آپ مان جائیں کہ آپ کے سامنے کوئی منزل یا مقصد ہے ہی نہیں۔ بنا کسی سمت کے چلے جا رہے ہیں اور جہاں کچھ گڑبڑ محسوس ہوئی فوری طور پریو ٹرن لے لیا۔
جہاں تک دنیا کے بڑے رہنماوں کا تعلق ہے تو حضوراکرم ﷺ سے لے کر قائد اعظم تک سب رہ نما جب کوئی بات کرتے ہیں تواس پر قائم رہتے ہیں۔ جوں جوں کسی رہنما کا قد بڑھتا جاتا ہے اس پر ذمہ داری کا بوجھ بھی بڑھتا جاتا ہے ۔ ان کے منہ سے نکلے الفاظ کی قدرو منزلت بھی بڑھ جاتی ہے اور ان کے ماننے والےان کی ہر بات پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں۔ میں نے بہت کوشش کی کہ تاریخ میں کسی بڑے رہنما کی مثال تلاش کروں جو کہ یوٹرن لینے میں ماہر رہے ہوں یا اپنے فیصلے تواتر سے بدلتے رہے ہوں۔ سوچتا ہوں کہ اگر قائد روز اپنے بیان سے، اپنے فیصلوں سے پھر جائے گا تو لوگ کس طرح اس کی پیروی کریں گے۔ اس کی کس بات پر یقین کریں گے۔ موقع پرست تو ہر دور میں وقت کے دھارے کے مطابق بدلتے رہے ہیں لیکن کوئی بڑا رہنما ایسا نہیں ملا۔ اگر قارئین کے علم میں ایسی کو مثال ہوتو براہ کرم میری رہنمائی فرمائیں۔
ہمارے محترم وزیر اعظم توبعض اوقات یوٹرن سے بھی ایک ہاتھ اگے نظر آتے ہیں ۔وہ اکثر یو ٹرن نہیں بلکہ اباوٹ ٹرن لیتے نظر آتے ہیں۔جیسے ہی کوئی مشکل سامنے نظر آئی فوری طور پر اباوٹ ٹرن یعنی الٹے قدموں واپسی اور پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھنا۔ مثال کے طور پر عمران خان صاحب کی تحریک لبیک کے حالیہ دھرنے پر کیا جانے والا قوم سے خطاب ہی ملاحظہ ہو، کس طمطراق سے دھرنے والوں کو مخاطب کیا کہ ریاست سے مت ٹکرایں ورنہ نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ ابھی ہم ان کی جرات کو سلام پیش کرہی رہے تھے کہ فوری طور پر اباوٹ ٹرن لے کر مذاکرات شروع کر دیئے گئے۔ اگر آپ پچھلے کچھ سال میں ان کی سیاست کا بغور جائزہ لیں تو آپ کو بہت دفعہ اباوٹ ٹرن لیتے نظر آئیں گے۔اب اس لفظ اباوٹ ٹرن میں کوئی اور مماثلت براہ کرم مت تلاش کیجئے گا۔
ابھی ایک اور پریشانی کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے جس سو دن کے پروگرام اور اصلاحاتی ایجنڈے کا اعلان کیا ہے کہیں اس سے بھی اباوٹ ٹرن نہ لے لیں ویسے ان کے بعض مشیروں نے تو ابھی سےیہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ سو دن کا ایجنڈا محض سیاسی بیان ہے۔ انتظار اس وقت کا ہے جب وزیراعظم سو دن پورے ہونے پر خود کہیں کہ میں نے تو کبھی سو دن کے ایجنڈے کا اعلان کیا ہی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).