تیرے جانے کے بعد


چلو ایک لمحے کے لئے یہ تصور کر لیتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ دن آن پہنچا ہے جس روز ہماری آنکھوں کو تمہیں دیکھے بغیر ہی پہاڑ جیسے لمحے کاٹنے پڑیں گے، تمہاری خوشبو کو محسوسکیے بغیر ہی ہمیں ایک طویل دن گزارنا ہو گا۔ رنگوں سے خالی ان لمحوں میں میری پہہلی نظر تمہارے آفس کی طرف جاتی ہے جہاں تمہاری کُرسی تمہارے وجود کے بغیر ادھوری اور بے جان پڑی ہے۔ تمہاری میز کی دائیں طرف چند چھوٹے چھوٹے سے کاغذ وں پر موجود کچھ لمحے اور چند خواب تمہارے بعد آخری سانسیں لے رہے ہیں۔

ان کاغذوں پر آڑھی ترچھی لکیروں اور ہندسوں کے نجانے کون کون سے کھیل کھیل کر تم اُنہیں ویسا ہی چھوڑ گئی ہو، اس میز پر چند آدھے ادھورے بال پوائنٹس بھی ہیں جن کی انک شاید ختم ہو چُکی ہے یا پھر تمہارے لمس کے بغیر ان بال پوائنٹس نے بھی چلنے سے انکار کر دیا ہے۔ تمہارا کمپیوٹر اور تمہارا کی بورڈ جو تمہارے قُرب کی خوشبو کا عادی ہو چلا تھا، اب آنسو بہاتا ہوا اپنی تنہائی پر نوحہ کناں ہے۔ اسی کمرے میں موجود صوفے پر تمہارے ساتھ کی گئی ڈھیر ساری باتیں مُسکراتی ہوئی نظر آ رہی ہیں اور نجانے کب تک نظر آتی رہیں گی۔

آفس کے در و دیوار خاموشی کی چادر اُوڑھے تمہارے جانے کا غم منا رہے ہیں مگر یہ تو بے جان چیزوں کا احوال ہے جان داروں کا حال تو شاید اس سے بھی بُرا ہے۔ آفس کے باہر موجود بہت سے لوگ یہی سوچ رہے ہیں کہ اب اپنے آنسو وہ کس سے بانٹیں گے۔ اپنی اپنی پریشانیوں کی گھٹڑیاں اُٹھائے وہ کس کے دروازئے پر دستک دیں گے۔ میرے ان گنت شکوئے وینٹی لیٹر پر پڑئے ہیں، تمہاری خوشبو ان شکوے شکایتوں کو بھی اپنے ساتھ ہی لے گئی ہے۔

ہاں پاس ہی میری دوستی بھی کھڑی ہے جو مجھ سے کہہ رہی ہے کہ فون ملاؤ اور بات کر لو اور میں یہ سوچ رہی ہوں کہ فون بھی ملا لوں گی۔ بات بھی ہو جائے گی مگر تمہاری خوشبو سے اب میری ملاقات نجانے کب ہو گی۔ تمہاری خوشبو میری تحریر پر اپنے رنگ بکھیرتی جا رہی تھی کہ اچانک چشم حیراں نے ایک عجیب منظر دیکھا کہ دور دیس کا ایک شہزادہ نجانے کتنی طویل مسافت کے بعد تمہاری بکھری ہوئی خوشبو کو سمیٹنے آن پہنچا ہے۔ تمہاری خوشبو اس مسافر کے ساتھ اُڑان بھرنے کو ہے اور ایک اور جہاں تمہاری مہک سے انمول ہونے جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).