مردوں کا عالمی دن


گزشتہ دنوں منایا جانے والا مردوں کا عالمی دن میرے علم میں نہیں تھا۔ کوئی شور ہے نہ ہی کوئی ایونٹ، نہ ان کی زندگی میں آنے والی مشکلات کا تذکرہ۔ یہ ابھی بلوغت کو بھی نہیں پہنچا محض 1994 میں اس کا آغاز ہوا اور تو ابھی بلوغت میں چار سال کا وقت باقی ہے۔ مرد کا نام ذہن میں آتے ہی ایک بے حس، مضبوط، توانا اور جابر حکمران کا تصور ابھرتا ہے۔ ایک ایسا انسان جو احساسات سے عاری، ہنسنے رونے پہ قابو رکھنے والا طاقتور جن ہو۔ ایسا سماج نے اسے رپریزنٹ کیا ہے ایک پدر سری سماج میں اس کے علاوہ ا ور تصور ابھر بھی کیا سکتا ہے۔ لیکن اسی دوران جب حقیقت کی آنکھ سے دیکھتی ہوں تو کچھ اور نظر آتا ہے۔

صبح ایک آواز سنی۔ ٹین ڈبے بیچ لو، ردی بیچ لو، ایک مرد ہے جو صبح سے فکر معاش میں باہر نکلا ہے شام تک خوار ہو گا نجانے کچھ گھر لے جا بھی پائے گا یا نہیں۔ مشقت ہے اور ساتھ پریشانی بھی۔ سارا دن خوار ہوتے ہزار ہا مرد کہیں دکانوں پہ، کہیں سڑکوں پہ، کہیں دفاتر میں، کام کر رہے ہیں اپنے بچوں کے لیے، خاندان کے لیے کام کرتے ہیں۔ لیکن شاید وہ کبھی جتاتے نہیں کہ وہ اپنی زندگی اپنا وقت اپنی طاقت سب کچھ اپنے پیاروں کے لیے سہولتیں پیدا کرتے گزار رہے ہیں۔

مرد کے حوالے میں یہ تصور بھی بہت مضبوط ہے کہ اسے احساسات اور جذبات پہ عورت کی نسبت زیادہ کنٹرول ہوتا ہے۔ مرد روتے نہیں یہ بات بچبن سے لڑکوں کے ذہن میں ڈالی جاتی ہے۔ مطلب ایک غیر انسانی رویہ ہے کہ کتنے برے حالات ہوں وہ رو نہیں سکتے اپبے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتے۔ اور یہ بہت تکلیف دہ بات ہے کہ انسان کھل کے اپنی محبت، غصے، پیار یادکھ کا اظہار نہ کر سکے۔ جہاں عورت کھل کے اپنے جذبات کا اظہار کر سکتی ہے وہاں مرد کو خاموش رہنا پڑتا ہے۔ آج کے دن ان سب مردوں کو سلام جو ہر حال میں اپنا فرض نبھا رہے ہیں۔ سماج کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں۔ بغیر صلے کی تمنا کیے اپنا وقت زندگی پیسہ سب کچھ دوسروں کی آسائش کے لیے لٹا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).