میں تیرا بوائے فرینڈ ،تو میری گرل فریںڈ



پروفیسر سعید علی نے صبح سویرے واک کی،ٹریک پر بھاگے اور پھر آرام سے ایک خاموش درخت کے نیچے آکر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے ۔اسی دوران میں موبائل پر ایک دلچسپ و عجیب نغمہ سن رہا تھا۔ گانے کے بول کچھ یوں تھے،میں تیرا بوائے فرینڈ، تو میری گرل فریںڈ، او مینوں کیندی ناں ناں۔سعید علی صاحب معصوم و شرارتی بچے کی طرح میرے ساتھ ملکر یہ چلبلا گانا انجوائے کرنے لگے اور قہقہے بکھیرتے رہے ۔گانا ختم ہوا تو فرمانے لگے،اجمل میاں،مزہ آگیا۔میں نے کہا سعید صاحب آپ جیسے شائستہ اور تعلیم یافتہ دانشور انسان تو اس طرح کی موسیقی کو بیہودہ خیال کرتے ہیں ۔
مسکراتے ہوئے کہنے لگے میں اس طرح کا مہذب و شائستہ انسان نہیں ہوں جیسا تم سمجھ رہے ہو۔مجھے تو یہ نغمہ دلچسپ لگا اور میں نے خوب انجوائے کیا ۔

سعید صاحب آپ ہر روز صبح سویرے پارک آتے ہیں،واک کرتے ہیں اور سکون سے کسی پراسراردرخت کے نیچے بیٹھ کر لوگوں کو دیکھتے رہتے ہیں۔صبح سویرے چلتے پھرتے انسانوں کو دیکھ کر آپ کو کیا خوشی ملتی ہے؟ انہوں نے فرمایا بیٹا صبح سویرے واک کرتے انسان انہیں بہت پسند ہیں۔وہ ایسے انسانوں سے محبت کرتے ہیں ۔درخت کے نیچے بیٹھ کر ان خوبصورت انسانوں کو دیکھ کر دل خوش ہوجاتا ہے ۔ دیکھو یہ واک کررہا ہے، وہ جسمانی ورزش میں مشغول ہے ،ادھر دیکھو جھیل کے ساتھ جم میں نوجوان ورزش کرنے میں مصروف ہیں، وہ یوگا کررہا ہے۔ زرا غور کرو دنیا کس قدر حسین اور خوبصورت محسوس ہورہی ہے۔خاموش درخت کے نیچے بیٹھ کر میں پارک کی اس خوبصورت دنیا کو انجوائے کرتا ہوں ۔

یہ دنیا اس وقت کسی جنت سے کم محسوس نہیں ہورہی ۔ اجمل میاں زندگی کو انجوائے کرنا ہے تو ہر روز صبح سویرے ایسی دنیا کا حصہ بن جایا کرو۔ پیدل چلنے والے،واک کرنے والے انسانوں کی خوبصورتی کو انجوائے کیا کرو ۔کبھی کبھار درختوں کے نیچے مراقبہ کیا کرو ۔ایسی خاموش اور خوبصورت دنیا کو وہی محسوس کرسکتے ہیں جو اس کا حصہ ہوتے ہیں ۔ واک کرنے والے انسان کے ساتھ ایک دلکش خاموشی بھی چلتی پھرتی نظر آتی ہے ۔حسین فطرت کی دلفریب اداوں کا مزہ لو ۔یہی زندگی ہے ۔

ورزشیں کرنے والے ،صبح سویرے دوڑنے والے ، یوگا کرنے والے ، مراقبہ کرنے والے ،درختوں کے نیچے بیٹھے انسان ،ان سب کو محسوس کرو ،یہ چلتی پھرتی اور ناچتی گاتی شاعری اور موسیقی جیسے ہیں ۔چاروں اطراف ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے موسیقی ،شاعری ،آرٹ سب ایک جگہ جمع ہیں اور فطرت کی مستی میں بدمست ہیں ۔ درخت کے نیچے بیٹھے نوجوان کے ارد گرد دلرباخاموشی کا رقص جاری ہے ۔ایسے محسوس ہو رہا ہے جیسے وہ کچھ تخلیق کررہاہے یا کسی چیز کی تخلیق ہورہی ہے۔ادھر دیکھو جاگنگ ٹریک پر چلتی خوبصورت لڑکی ،ایسے لگ رہا ہے جیسے ہم سب اس کی خوبصورتی میں بدمست ہو جائیں گے ۔سعید صاحب انسان کو صحت مند اور خوشگوارموڈ میں رہنے کے لئے اور کیا کرنا چاہیئے ؟ سب سے پہلے تو انسان کو صبح سویرے کی تازگی کو انجوائے کرنا چاہیئے ۔آسمان کی وسعتوں کا نظارہ لینا چاہیئے ۔دوڑنا بھاگنا چاہیئے ۔لیکن ایک بات یاد رکھنا یہ سب کچھ ہوتے ہوئےزہن میں یہ بات نہیں سوچتے رہنا چاہیئے کہ اس سے صحت اچھی ہوگی ۔ ایسا ہوگا تو پھر دلکش و دلفریب ماحول کو انجوائے نہیں نہیں کیا جاسکتا ۔

ورزش کرنے کو کسی قسم کا کام نہیں سمجھنا چاہیئے بلکہ اس سرگرمی کو انجوائے کرنا چاہیئے ۔ ایسے ہی جیسے سریلے نغموں کو انجوائے کرتے ہو ،جیسے کسی خوبصورت خاتون کی کمپنی کو انجوائے کرتے ہو ۔جیسے رقص کو انجوائے کرتے ہو ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی سرگرمی کا تعلق دماغ سے ہوتا ہے اور انجوائے ہمیشہ دل سے کیا جاتا ہے ۔اجمل میاں دنیا کا ہر انسان خوبصورت فطرت کا بچہ ہے ۔آٹھ گھنٹے ہر انسان بھرپور انداز میں محنت اور تگ و دو سے کام کرسکتا ہے کیونکہ جو محنت نہیں کرتے وہ گہری اور خوبصورت نیند کو انجوائے نہیں کرسکتے ۔

سعید صاحب کچھ انسان بے خوابی کا شکار کیوں رہتے ہیں؟ دنیا کی آدھی سے زائد آبادی بے خوابی کا شکار ہے ۔اس بے خوابی کی وجہ یہ ہے کہ انسان خوبصورت نیند سے بھی بے خبر ہیں ۔وہ اس طرح کی صورتحال تخلیق ہی نہیں کرتے جس سے وہ نیند کی خوبصورتی کو انجوائے کرسکیں ۔اجمل میاں اس دنیا میں بھکاری بادشاہوں سے بہتر نیند انجوائے کرتا ہے ۔مزدور سرمایہ داروں اور دانشوروں سے بہتر نیند کے مزے لیتا ہے اور کبھی بے خوابی کا شکار نہیں ہوتا ۔ دنیا میں غریب امیر سے بہتر اور پرسکون نیند اس لئے سوتا ہے کیونکہ غریب روزی روٹی کے لئے تگ و دو اور محنت کرتا ہے اور پھر تھک ہار کر گہری نیند کو انجوائے کرتا ہے۔خوبصورت نیند بھی فطرت کا عظیم تحفہ ہے ۔

کیا بے خوابی کوئی بیماری ہے؟ بے خوابی بیماری نہیں ہے ۔بے خوابی امیرانہ طرز زندگی کی وجہ سے ہے ۔سارا دن جب انسان آرام و سکون کرے گا تو کیسے وہ رات کو پرسکون نیند کے مزے لے سکتا ہے ۔بے وقوف ہیں وہ انسان جو بے خوابی کو بیماری سمجھ کر ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں ۔ڈاکٹر کے پاس جانا بے معانی ہے۔ اگر آپ امیر ہیں ۔آپ کے پاس بے تحاشا دولت ہے ۔آپ کو کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں تو پھر اپنے باغیچے میں کام کرو ،بدقستی دیکھو کہ وہاں بھی امیروں نے مالی رکھا ہوتا ہے ۔ مالی رات کو پرسکون نیند کے مزے لے رہا ہوتا ہے اور یہ بے خوابی کو دور کرنے کے لئے سلیپینگ پلز کے سہارے سونے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔اس کے باوجود ان امیروں کو نیند نہیں آتی ۔کوئی کام نہیں تو ورزش کریں ۔سوئمنگ کی عادت ڈالیں۔ ،دوڑیں،بھاگیں اور تخلیقی کام کریں۔ ۔کچھ نہ کچھ تو کرنا چاہیئے ۔امیر کو کوئی بھی کام نہیں تو وہ غریبوں کی خدمت پر جت جائے ۔اس طرح سماج کا ماحول بھی خوشگوار ہوگا اور اسے سکون کی نیند بھی آئے گی ۔

دانشور کیوں بے خوابی کا شکار ہو جاتے ہیں ؟ اجمل میاں بے خوابی حقیقت میں دانشوروں کی ہی تخلیق کردہ بیماری ہے۔ دانشوروں کا دماغ چوبیس گھنٹے کام کرتا رہتا ہے۔ ہر وقت دماغ کو کام کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ جب یہ دانشور رات کو سونے کی کوشش کرتے ہیں تو اس وقت بھی ان کا دماغ کام کررہا ہوتا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے دانشور دماغ پر کنٹرول کھو دیتے ہیں ۔پھر جتنا چیخیں چلائیں ،دماغ ان کے شور شرابے کی پرواہ نہیں کرتا اس لئے ہمیشہ بے خوابی کا شکار رہتے ہیں ۔اسی وجہ سے دل کے مرض کا شکارہو جاتے ہیں ، شوگر ہو جاتی ہے، ہائی بلڈ پریشر ہوجاتا ہے یا پھر کوئی اور نفسیاتی مرض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دانشوروں کو چاہیئے کہ وہ دانشوری کے ساتھ ساتھ مراقبہ اور یوگا کریں۔ جسمانی ورزش کو اپنی عادت بنائیں۔

جسمانی سرگرمی بھی بہت بڑی نعمت ہے ۔محنت کرنے میں بھی ایک خاص خوبصورتی ہے ۔اس سے جسم کو ایک خاص قسم کی راحت کا احساس ہوتا ہے ۔جو محنت نہیں کرتے ،انہیں اس طرح کا احساس نصیب نہیں ہو سکتا ۔ یہ انسانی جسم ایک ٹمپل کی طرح ہے۔ٹمپل کے دو پہلوو ہوتے ہیں ،ایک جسمانی اور دوسرا روحانی، دونوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔جسم کو زمین اور آسمان دونوں قسم کی موسیقی اور شاعری کی ضرورت رہتی ہے ۔آج کے انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ جو زمین کی آسائشوں سے مزین ہیں وہ آسمان کی دلکشی کو بھلا بیٹھے ہیں اور جو آسمان کی نعمتوں سے مالا مال ہیں وہ زمین کی دلفریب اداوں سے ناواقف ہیں ۔اسی وجہ سے انسان صحت مند اور توانا نہیں رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).