پیمائش کا مسئلہ اور اکیسویں صدی کا نیا کلوگرام


سات بنیادی اکائیوں کی نئی تعریفات بلاشبہ اس صدی کا اہم ترین سائنسی واقعہ ہیں۔ اس سلسلے میں حالیہ پیش رفت ابھی دو روز قبل ہوئی جب کلوگرام کی نئی تعریف پر دنیا بھر کے اہم ترین سائنس دانوں کا اجماع ہوا۔ ہمارے سماج کے لحاظ سے اس واقعے کی حیثیت دو چند ہے کیوں کہ ہم اسے ہائی اسکول کے درجے پر سائنس کی رسمی تدریس اور اعلیٰ تعلیم کے درجے پر تاریخِ سائنس اور فلسفۂ سائنس کی غیررسمی ترویج کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

ہمارے ہاں عمومی طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک کے مراحل میں سائنس کی عملی جہت کو تدریس کا مرکز بناتے ہوئے ان دونوں جہتوں کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کے باعث پس منظر کا فقدان واقع ہوتا ہے۔ جیسا کہ اس سے قبل ایک مضمون میں تفصیلی ذکر کیا جا چکا ہے، ہم اس پس منظر کو سائنس کی شعریات کا نام دے سکتے ہیں، جس کی ایک جہت تاریخ اور دوسری فلسفہ ہے۔ تاریخِ سائنس سے نابلد ہونے کے باعث اساتذہ اور طالبِ علم سائنسی روایت سے بالکل علیحدہ ایک خالی خولی میکانیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

فلسفۂ سائنس سے لاعلمی سائنسی دریافت کی منطق سے بے خبری کا باعث بنتی ہے۔ روایت اور منطقی ڈھانچوں سے یکسر لاعلمی ایک طرف تو اس قسم کے دعووں کو منظرِ عام پر لاتی ہے جہاں جدید تربیت یافتہ ڈاکٹر کینسر جیسی بیماری کے شکار مریض کو مرض اور علاج سے رسمی آ گاہی کی بجائے اورادو وظائف اور دم درود وغیرہ جیسے علاج تجویز کرتے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف سماج میں سائنس کے مظاہر تو نظر آتے ہیں لیکن خود اعتمادسائنسی علمیات کی بنیاد پر ایجادِ علم اور دریافت کا عمل پنپنے نہیں پاتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں انجینیر اور ڈاکٹر تو بہت ہیں لیکن سائنس دان، ریاضیات اورسائنسی علمیات کے محقق نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ہم سب روزمرہ زندگی میں کسی نہ کسی طور پیمائش سے دوچار ہیں، لہٰذا مقیاسی معیارات قدیم ادوار ہی سے اہم ثقافتی مظاہر مانے جاتے رہے ہیں۔ مقیاسی نظام کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹیکنالوجی کے تمام معیارات کی بنیادوں میں موجود ایک تقریباً مقدس مقیاسی معیار سیاسی قوت کا مظاہرہ بھی ہے۔ عصرِ حاضر کی بنیادی اکائیوں کی تاریخ قرونِ وسطیٰ کی مغربی یوروپی ثقافت بالخصوص آٹھویں اور نویں صدی کی کارولنژیان نشاۃ الثانیہ تک جاتی ہے۔

بادشاہت کے حوالے سے یہ شاہ شارلمین اور اس کے سپوت لوئی پارسا کے ادوار ہیں۔ سو فی صد وثوق سے دعوے کے لیے تو کچھ تحقیق لازم ہے لیکن فرانسیسی زبان میں pied du Roi کی اصطلاح لمبائی کے جس معیار کے لیے ایک ہزار سال یعنی لوئی پارسا سے لے کر انقلابِ فرانس تک استعمال ہوتی رہی ہے اس کے معنی ”پائے شہنشاہ“ ہی کے ہیں۔ چونکہ قدیم ادوار میں انسانی جسم ہی کو پیمائش کا اولین معیار مانا جاتا تھا لہٰذا وہیں سے لمبائی کی اکائی حاصل کی گئی۔

آج کی تحقیق کے مطابق بھی سفید فام انسانی پاؤں انسانی جسم کی کل لمبائی کا تقریباً پندرہ فی صد ہوتا ہے، لہٰذا یہ قدیم فٹ آج کے معیار کے مطابق تقریبا دس سے گیارہ انچ لمبا تھا۔ معیار کی کم و بیش یہی روایت مصری، بابلی اور ہندوستانی تہذیبوں میں بھی دیکھنے میں آتی ہے جہاں فٹ کی جگہ ذراع کی اکائی کو معیار مانا گیا۔ لمبائی، وزن اور حجم کی بنیادی اکائیوں کے اس قدیم یوروپی نظام کو کچھ تبدیلیوں کے بعد انقلابِ فرانس کے دس سال بعد 1799ء میں فرانسیسی قانون کا حصہ بنایا گیا۔ باقی بنیادی اکائیاں آنے والی ڈیڑھ صدی میں کئی تبدیلیوں کے بعد مقیاسی نظام کا حصہ بنتی چلی گئیں۔ 1875ء میں دنیا کی سترہ اقوام نے پیرس میں اس عہدنامے پر دستخط کیے جیسے ”میٹر کنوینشن“ کہا جاتا ہے۔ 1960ء میں بالآخر بنیادی اور ان سے اخذ کردہ اکائیوں کا ایک بین الاقوامی نظام وجود میں آیا۔

اٹھارہویں صدی کے قانونی دستاویزات میں مقیاسی اکائیوں کی مذکورہ تعریفات پر نظر ڈالنے سے دلچسپ فلسفیانہ مفروضے اور عملی مسائل سامنے آتے ہیں۔ فرانسیسی قومی اسمبلی کے ذریعے 1799ء میں توثیق پانے والے قانون میں لکھا گیا ہے کہ یہ نظام ”آنے والے تمام وقتوں اور تمام انسانوں“ کے لیے ہے کیوں کہ ان اکائیوں کی بنیادی طبعی( یا قدرتی) ہے۔ مثال کے طور پر ایک کلوگرام ایک لٹر پانی کی کمیت، ایک میٹر قطبِ شمالی سے خطِ استوا کے فاصلے کا ایک کروڑواں حصہ اور ایک سیکنڈ مکمل دن کو چوبیس گھنٹوں، ہر گھنٹے کو ساٹھ منٹوں اور ہر منٹ کو ساٹھ سیکنڈ ماننے کے بعد ایک دن کا چھیاسی ہزار چارسوواں حصہ ہے۔

لیکن استعمال کی خاطر ان کی نقل کیسے کی جائے، مثنیٰ کیوں کر تیار ہوں، باٹ، گھڑیاں، ترازو اور پیمانے کس معیار کے تحت بنائے جائیں؟ ظاہر ہے کہ ان تعریفات کو کسی ٹھوس شے سے جوڑنا لازم تھا جس کے لیے مختلف حل نکالنے کی کوششیں جاری رہیں۔ کچھ حل تو جلدی ممکن ہوئے مثلاًپلاٹینم کا معیاری کلوگرام 1889ء ہی میں تخلیق ہو چکا تھا لیکن سیکنڈ کے معیار کا مسئلہ 1967ء تک حل نہ ہو سکا جب آخر کار اسے سیسیم 133 ایٹم کے دو ہائپر فائن درجوں میں اشعائی توانائی کی دوری حرکت کے 9192631770 چکروں کا دورانیہ مان لیا گیا۔

لیکن ساتوں بنیادی اکائیوں کو ٹھوس معیارات سے منسلک کر دینے والے یہ جزوقتی حل اس آدرش پر پورے نہیں اترتے جو کسی بھی معیار کی تعریف کا ایک خالص تجریدیت کا آدرش ہے۔ تجریدیت کا یہ آدرش ہی دراصل کسی بھی مقیاسی اکائی کے نظام کو ہمیشگی اور عمومیت کی ان صفات سے سرفراز کرتا ہے جو ”آنے والے تمام وقتوں اور تمام انسانوں“ کے لیے بامعنی ہو۔ عملی مسائل اس کے علاوہ ہیں جو جدید ٹیکنالوجی کے ڈیزائن میں بالکل متعین اور درست پیمائش نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور مختلف سمجھوتوں کا باعث بنتے ہیں۔

کونیاتی سطح پر یہ مسائل حددرجہ بڑھ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ نظری طبیعیات یا فلکیات کے ماہر ہیں اور کسی سیارے یا ستارے کا وزن معلوم کرنا چاہتے ہیں تو کلوگرام کے معیار میں ذرا سا فرق بھی پیمائشوں کو کہیں سے کہیں لے جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کسی ستارے کے وزن کی بابت کوئی دعوی کرنا مشکل ہے کیوں کہ وہ کششِ ثقل پر منحصر ہے۔ آخرآپ کو کمیت پر ہی انحصار کرنا ہو گا جو اس ستارے میں موجود کل مادے کی پیمائش ہے۔ آج کمیت ِ شمسی علمِ فلکیات میں ایک معروف اکائی ہے جس کو دوسرے ستاروں کی کمیت کا معیار مانا جاتا ہے۔ چمچ بھر شمسی مادہ تقریبا دس ملین ٹن ہوتا ہے۔

طبعی قانون کی تعریف کے باعث بات دوسری طرف نکل جانے کا خدشہ ہے لیکن پیمائش کے مسئلے کی حد تک یہ نکتہ اٹھائے بغیر چارہ نہیں کہ فکرِ انسانی طبعی قانون کی تعریف پر ایک ایسے مفروضے پر بالاجماع متفق ہو چکی ہے جس کو کم از کم عملی سائنس کی حد تک ایک بار پھر ردّ وقبول کے طویل سلسلے سے گزارنا ممکن نہیں۔ یہ ایک ایسا مفروضہ ہے جیسے نہ صرف سائنسی روایت نے سینچا ہے بلکہ دریافت و ایجاد کی کل عمارت کا ڈھانچہ اسی پر کھڑا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi