تم بھی گورا پھنسا لو!


کچھ دن پہلے ایک خبر نظر سے گذری کہ ایک بیس سالہ پاکستانی لڑکے اور ایک اکتالیس سالہ امریکی خاتون شادی کررہے ہیں۔ اس خبر کے نیچے لوگوں‌ نے دلچسپ تبصرے کیے ہوئے تھے۔ کچھ لوگوں‌ کا خیال تھا کہ لڑکے نے گوری پھنسا لی ہے، کچھ خواتین سوچ رہی تھیں‌ کہ وہ ان خاتون کو گرین کارڈ کے لیے استعمال کررہا ہے۔ کچھ کافی غصے میں‌ تھیں‌ کہ اس نے اکتالیس سالہ پاکستانی خاتون سے شادی کیوں‌ نہیں‌ کی؟ کچھ کا خیال تھا کہ یہ بڑی عمر کی خاتون اس نوجوان لڑکے کو پھنسا رہی ہیں جس کو ایک قدامت پسند معاشرے میں‌ رشتوں‌ کا کچھ تجربہ نہیں۔

فیس بک کے ذریعے میری ایک پاکستانی خاتون سے بات چیت ہوئی جو سنگل ہیں اور اپنے گھر میں‌ قیدی ہیں۔ وہ بولتی جا رہی تھیں‌ اور مجھے ان کی سچؤیشن کچھ سمجھ نہیں‌ آ رہی تھی کہ ان کو کہیں جانے کی اجازت نہیں‌ ہے۔ کوئی سہیلی ان سے ملنے نہیں‌ آسکتی۔ اجازت؟ لیکن آپ تو بالغ ہیں۔ ایک بالغ انسان کو کسی کی اجازت کی ضروت نہیں‌ ہوتی۔ ان کے ماں‌ باپ، بھائی اور بھابھیاں ان کے کھانے پینے، پہننے اوڑھنے اور ہر قدم پر نظر رکھتے ہیں جس کا ان کا قانونی یا اخلاقی کوئی حق نہیں۔ یہ کیسی زندگی ہے؟

اس ہفتے میری کلینک سے چھٹی تھی اور میں‌ گھر پر ہی تھی۔ لن انسٹیٹوٹ سے ریسرچ کوآرڈینیٹر نے ٹیکسٹ کیا کہ کچھ پیپر آ کر سائن کردیں۔ میں‌ نے اپنا بیگ اٹھایا اور گاڑی چلا کر گئی، سارے کاغذ سائن کیے اور واپس آگئی۔ ان خاتون کی باتیں‌ مجھے اتنی حیرت انگیز لگ رہی تھیں‌ کہ سارا وقت فون سے چپکی رہی اور صرف پانچ منٹ کے لیے ہولڈ کروایا تاکہ سارے کاغذ سائن کروں۔ ان کی صورت حال کے گرد اپنا دماغ لپیٹنا میرے لیے کافی مشکل کام ہے۔

لیکن آپ کی فیملی آپ کے ساتھ اس قدر برا سلوک کیوں‌ کررہی ہے؟

وہ لوگ ڈرتے ہیں‌ کہ میری وجہ سے ان کی ناک کٹ جائے گی۔

لیکن ہر انسان اپنی ناک کا خود ذمہ دار ہے۔

انہوں‌ نے اپنی ماں‌ کے بارے میں‌ جو باتیں‌ بتائیں وہ بھی نہایت حیران کن تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ تمام خاندان کا سارا زور اس بات پر ہے کہ اس خاتون کی شخصیت کو پوری طرح‌ کچل دیا جائے اور اس کی زندگی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرلیا جائے۔ جیسے وہ خود کوئی انسان ہی نہیں جس کے اپنے خیالات، احساسات، جذبات اور ضروریات ہوں، اس کے اپنے آدرش ہوں۔ آپ کو کسی سے کچھ پوچھنے کی کیا ضرورت ہے؟ جہاں‌ دل چاہے چلی جائیں۔ نہیں نہیں! ایسا نہیں‌ ہوسکتا، بات چیخ پکار اور ہاتھاپائی تک بھی پہنچ جاتی ہے۔

میں‌ خوفزدہ ہوں۔ کہنے لگیں‌ کہ میرے خاندان کا کہنا ہے کہ شادی کرلو پھر جو دل چاہے کرتی رہنا لیکن مجھے لگتا ہے کہ میری شادی کی عمر نکل چکی ہے۔ اب مجھے یہ کارٹون پنا لگتا ہے۔ ان کی کہانی سن کر میں‌ یہ مضمون لکھ رہی ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ اسے پڑھ کر کچھ لوگوں‌ کو سمجھ آئے کہ ہر انسان کے گرد ایک دائرہ ہے اور اس کا اپنی زندگی پر حق ہے۔ اگر دوسرے لوگوں‌ کو سمجھ نہ بھی آئے تو کم از کم خواتین میں‌ اپنے لیے کھڑے ہونے کا حوصلہ پیدا ہو۔

ان سے بات کرتے ہوئے میرا دل چاہا کہ کاش میری بیٹی ان سے بات کرے۔ شاید اسے اندازہ ہو کہ اسے ایک لڑکی کے طور پر کیسی ماں‌ ملی۔ ان صاحبزادی کو دنیا کی ہر سہولت اور آزادی ملی ہوئی ہے پھر بھی وقتاً فوقتاً پیرنٹنگ پر وہ میری کلاس لگاتی رہتی ہے۔ میری بیٹی گرل اسکاؤٹ ہے، باکسر ہے، پیانو اور وائولن بجاسکتی ہے، اس کی اپنی لال گاڑی ہے اور کہیں‌ آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ہائی اسکول کے آخری سال سے ہی کالج کی کلاسیں‌ بھی لینا شروع کر دیں۔ اس کو بھی ڈاکٹر بننے کا شوق ہے۔ اس کو صرف بتانا ہوتا ہے کہ کہاں‌ ہے تاکہ ہمیں‌ معلوم ہو کہ وہ کہاں‌ ہے۔ وہ کس سے شادی کرلے گی اس بات سے ہماری صحت پر کوئی اثر نہیں‌ پڑتا۔ اس کو اپنی زندگی میں‌ خوش رہنا چاہئیے۔ امریکی شادی ایک سنجیدہ سماجی اور قانونی تعلق ہے اورکم عمری میں‌ نہ ہی ہو تو بہتر ہے۔

امریکی خاتون کی پاکستانی نوجوان سے شادی اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ یہ کافی عام بات ہے کہ امریکی یا یورپی خواتین انڈیا یا پاکستان کے مردوں سے تعلقات بنائیں یا شادی بھی کرلیں۔ اگر سوشل میڈیا کی بدولت ان لوگوں‌ کو ایک دوسرے سے بات کرنے، ایک دوسرے کو سمجھنے یا ساتھ میں‌ زندگی گذارنے کا موقع مل رہا ہے تو دیسی خواتین کو بھی اس راستے سے کچھ فائدہ اٹھانے کے بارے میں‌ سوچنا چاہئیے۔ امریکی یا یورپی آدمیوں‌ سے تعلق بنانے سے پہلے علاقائی زبان اور قوانین سیکھنا ضروری ہیں‌ تاکہ آپ کو اپنے حقوق معلوم ہوں۔ اگر امریکی خاتون کلمہ پڑھ کر دودھ کی دھلی بن سکتی ہیں تو امریکی آدمی کیوں‌ نہیں؟

مسلمانوں‌ کی آبادی میں‌ ایک بندہ بڑھانے سے آپ کو بھی ثواب ملے گا۔ دیس میں‌ بیٹیاں‌ گھروں‌ میں‌ قید ہیں۔ ان کو تعلیم حاصل کرنے کی، نوکری کرنے کی یا اپنی مرضی سے زندگی گذارنے کے بنیادی حقوق حاصل نہیں‌ ہیں۔ اگر ہر گھر میں‌ سے ایک لڑکی بھی نکل گئی تو پیچھے سارے خاندان کو سہارا دے سکتی ہے۔ قندیل بلوچ کے واقعے سے سبق سیکھیں اور واپس مت جائیں۔ ان لوگوں‌ کو سدھرنے میں‌ ابھی دو تین نسلیں‌ لگیں گی۔

جب میں‌ کولمبیا گئی تو دیکھا کہ جن خواتین کی شادیاں‌ نہیں ہوئی تھیں، انہوں‌ نے خود اپنے بچے پیدا کیے جو بڑھاپے میں‌ ان کا سہارا ہوں۔ امریکہ میں‌ بھی بہت ساری خواتین شادیاں نہیں کرتیں بلکہ اسپرم بینک سے اسپرم خرید کر اپنے بچے پیدا کرلیتی ہیں۔ وہ اپنی زندگی خود گذار رہی ہیں۔ اگر کوئی چاہے تو بچے گود بھی لیے جاسکتے ہیں۔ ہر انسان پر شادی مسلط کرنا درست نہیں۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ روایتی شادی ان کے جسم اور دماغ پر قبضے کی کوشش ہے۔ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے اور ہر انسان کا اپنی مرضی سے اپنی زندگی گذارنے کا حق ہے۔

ایک اٹھارہ سال کے بالغ کو اپنی پراپرٹی کا مالک ہونے کا، تعلیم کا، نوکری کا اور ایک محفوظ معاشرے میں ایک برابر کے آزاد شہری ہونے کا حق حاصل ہے۔ آپ کے ماں‌ باپ یا بھائی یا بیٹے آپ کے مالک نہیں‌ ہیں۔

ان خاتون نے کہا کہ وہ عمر میں‌ تو زیادہ ہیں‌ لیکن دل اور ذہن بچوں جیسا ہے کیونکہ انہوں‌ نے کبھی اپنے لیے کوئی فیصلے نہیں‌ کیے۔ ان کو اپنے حصے کی غلطیاں‌ کرنے کا موقع نہیں‌ ملا۔ اس طرح‌ کے کوئی سماجی کھیل کود کے مشاغل نہیں‌ تھے جن سے ان میں‌ اعتماد پیدا ہوتا۔ ان کی ماں‌ ان سے حسد کرتی تھیں اور انہوں‌ نے اپنے بیٹوں‌ کی تربیت اس طرح‌ کی کہ اس لڑکی کو بالکل جینے نہ دیا جائے۔ یعنی جیسا نارمل بہن بھائیوں‌ کا برابر کا رشتہ ہوتا ہے وہ یہ خاندان نہیں جانتا۔

یہ کافی عام بات ہے کہ مائیں‌ خود ہی اپنی نوجوان بیٹیوں‌ کی خوبصورتی سے جلنے لگتی ہیں اور ان سے مقابلے میں‌ لگ جاتی ہیں۔ جن لوگوں‌ کی اپنی زندگی نہیں‌ ہوتی وہی دوسروں‌ کی زندگی گذارنے کی کوششوں‌ میں‌ ہوتے ہیں۔ امریکہ میں‌ بچوں‌ کی نوجوانی اور خوبصورتی کو سیلیبریٹ کیا جاتا ہے۔ ہائی اسکول میں‌ باقاعدہ پرام ہوتا ہے جس میں‌ سب لڑکے لڑکیاں خوب بن ٹھن کر جاتے ہیں اور آخری سال میں‌ سب کی گلیمر تصویریں‌ اتاری جاتی ہیں۔ ان میں‌ اعتماد بڑھایا جاتا ہے اور ان کی شخصیت کچلنے کا رواج نہیں ہے۔ پرام کے بعد تمام ماں‌ باپ فخر سے اپنے بچوں‌ کے ساتھ تصویریں‌ کھنچواتے ہیں۔ یہ بچے نارمل ذہنی اور جسمانی طور پر بڑے ہوتے ہیں اور دنیا کو سیکھتے ہیں۔ اسی لیے وہ آگے چل کر ایک ترقی یافتہ ملک کے کارآمد شہری بنتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).