ٹرمپ کو پاکستانی وزیر اعظم کا جواب


ملکوں کے تعلقات مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ تھینک ٹینکس، سفارتی ذرائع، میڈیا وار، پروپیگنڈا کا موثر استعمال اور این جی اوز کا جال نئے عالمی بیانیے کوموثر تر بنانے کے لیے بنا جاتا ہے۔ این جی اوز کا جب ذکر کیا جاتا ہے تو اس پہ سر سری بات کر کے گزر جانا قرین انصاف نہیں۔ پورے سیمینار کا موضوع ہے۔ بعض غیر ملکی این جی اوز کے کریڈٹ پر قابل رشک کام ہیں۔ لیکن اکثریت کے کام کا مرکزی ڈرافٹ غیر ملکی ایجنڈے کو رفتہ رفتہ تیسری دنیا کے ممالک میں سرایت کرنا ہے۔ زمینی حقائق کو نظر انداز کرنی والی قومیں تباہی کی کھائی میں منہ کے بل گرتی ہیں۔ نعرے بازی اور غیر ملکی قرضے اتارنے کا ”نادر“ نسخہ اندھے عقیدت مندوں کے ہجوم میں بیان کر کے واہ واہ تو کرائی جا سکتی ہے مگر ایسے نسخہ ہائے کیمیا کا واقعات کی اصل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، البتہ جگ ہنسائی ضرور ہوتی ہے۔

سیاست کے اتار چڑھاؤکا کھیل بڑا پیچیدہ اور منافقانہ ہے۔ اوبامہ جب امریکی صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آئے اور پنی انتخابی مہم چلائی تو انھوں نے باقاعدہ اعلان کیا تھا کہ اگر دہشت گر خانہ کعبہ میں جا چھپے تو ہم خانہ کعبہ پر بھی حملہ کر دیں گے۔ ممکن ہے الفاظ وہی نہ ہوں مگر مفہوم ہو بہو یہی تھا۔ یہ کیا تھا؟ اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ عروج پرتھی، امریکی عوام میں اضطراب اور خوف تھا۔ اوبامہ ان کا یہ خوف دور کرنا چاہتے تھے اور وہ کامیاب رہے۔

وہ تبدیلی کانعرہ لے کر وائٹ ہاؤس کے مکین بنے۔ لیکن افغان جنگ کو وہ کسی منطقی نتیجے تک نہ پہنچا سکے۔ امریکی صدر بش سے لے کر اوبامہ اور اب ڈونلڈ ٹرمپ آخر اپنی جنگی ناکامیوں کا ذمہ دار پاکستان ہی کو کیوں ٹھہراتے ہیں؟ یقیناً دفاعی تجزیہ کاروں اورحالات حاضرہ پہ گہری نظر رکھنے والوں کو اس حوالے سے کھل کر جزئیات بیان کرنی چاہئیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ جذباتی نعروں کے ذریعے ہم حقائق کو مسخ کر دیں۔ نائن الیون کا واقعہ بے شک صدی کی بد ترین مگر منظم دہشت گردانہ کارروائی تھی۔ اس حملے کے نتیجے میں امریکہ، نیٹو اور اس کے دیگر اتحادیوں کا ردعمل فطری تھا۔

ہاں لیکن یہ فطری ردعمل باؤنس بیک ہوا۔ دہشت گردی کی جنگ کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا۔ پاکستان کے پاس دوسرا کوئی راستہ ہی نہیں تھا کہ وہ امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بننے کے سوا جسے اختیار کرتا۔ میرے خیال میں پاکستان کا فیصلہ ملکی مفاد میں بالکل درست تھا۔ یہاں سے پاکستانی سماج میں نئی طرح کی دہشت گردی نے نقبلگائی اور دہشت گردانہ حملوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ کہنے کو تو یہ امریکی اتحادی ہونے کے خلاف ”جہادیوں“ کا ردعمل تھا۔

مگر اس ردعمل نے پاکستانی معیشت اور انسانی جانوں کو جو نقصان پہنچایا اس کا تصور بھی نہایت بھیانک ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اتوار کو امریکی ٹیلی ویژن چینل فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ کہ پاکستان نے اسامہ بن لادن کو اپنے ملک میں رکھا ہوا تھا۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں ہر کسی کو معلوم تھا کہ وہ (اسامہ بن لادن) فوجی اکیڈمی کے قریب رہتے ہیں۔ اور ہم انھیں 1.3 ارب ڈالر سالانہ امداد دے رہے ہیں۔

ہم اب یہ امداد نہیں دے رہے۔ میں نے یہ بند کر دی تھی کیوں کہ وہ ہمارے لیے کچھ نہیں کرتے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان پر کھل کر تنقید کی ہو۔ اس سال کے آغاز پر انھوں نے کہا تھا کہ‘ امریکہ نے 15 سالوں میں پاکستان کو 33 ارب ڈالر بطور امداد دے کر بے وقوفی کی۔ انھوں نے ہمیں سوائے جھوٹ اور دھوکے کے کچھ نہیں دیا۔ جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر درعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریکارڈ کی درستگی کے لیے پاکستان کبھی بھی نائن الیون میں ملوث نہیں رہا لیکن اس کے باوجود پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔

اپنی ٹویٹ میں عمران خان نے مزید کہا کہ اس جنگ میں پاکستان نے 75000 افراد کی قربانی دی اور 123 ارب ڈالر کا مالی خسارہ برداشت کیا جبکہ اس بارے میں امریکی امداد صرف 20 ارب ڈالر کی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں پاکستان کے قبائلی علاقے تباہ ہوئے اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔ انھوں نے کہ پاکستان آج بھی امریکی افواج کو اپنے زمینی اور فضائی راستے استعمال کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے امریکی صدر سے پوچھا ہے کہ کیا وہ اپنے کسی دوسرے اتحادی ملک کا نام بتا سکتے ہیں جس نے شدت پسندی کی جنگ میں اتنی قربانیاں دی ہوں۔ پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی کہا کہ پاکستان کے حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ کا تازہ بیان ان پاکستانی رہنماؤں کے لیے سبق ہونا چاہیے جو نائن الیون حملوں کے بعد سے امریکہ کو خوش رکھنے کی پالیسی پر گامزن تھے۔ یہ بھی اہم ہے کہ کچھ عرصہ قبل امریکہ کے محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے نیٹ ورکس کے خلاف کارروائیاں نہ کرنے پر اس کی تقریباً تمام سکیورٹی امداد روک رہی ہے تاکہ پاکستانی حکومت کو بتایا جا سکے کہ اگر وہ امریکہ کے اتحادی نہیں بنتے تو معاملات پہلے کی طرح نہیں رہیں گے۔

محکمۂ خارجہ کے مطابق جب تک اسلام آباد حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے خلاف کارروائی نہیں کرتا امداد کی فراہمی کا سلسلہ منجمد رہے گا۔ گذشتہ برس امریکی صدر کی جانب سے وضع کردہ قومی سلامتی کی حکمت عملی میں بھی کہا گیا تھا کہ ’ہم پاکستان پر اس کی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جاری کوششوں میں تیزی لانے کے لیے دباؤ ڈالیں گے، کیونکہ کسی بھی ملک کی شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے لیے حمایت کے بعد کوئی بھی شراکت باقی نہیں رہ سکتی۔

امریکہ کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان کے اندر سے کام کرنے والے شدت پسندوں اور دہشت گردوں سے امریکہ کو مسلسل خطرات لاحق ہیں۔ اس پالیسی کے سامنے آنے کے بعد امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس نے دورہ افغانستان کے موقعے پر پاکستان سے ایک بار پھر کہا تھا کہ وہ افغانستان کی حکومت کے خلاف لڑنے والے گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم نہ کرے۔ آخری تجزیے میں امریکہ افغانستان کو فتح کرنے کے لیے حملہ آور ہوا ہی نہیں تھا بلکہ امریکہ کا مقصد افغانستان کو مستقل اڈا بنا کر چین، پاکستان اور ایران کو مسلسل دباؤ مین رکھتے ہوئے اپنے اسٹریٹجک مفادات کو آگے بڑھانا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے معاشی اور سفارتی ہتھکنڈے استعمال کرے گی۔ ایسے میں پاکستان کے معاشی، سفارتی اور دفاعی تھینک ٹینکس متبادل کے طور پر کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں یا کیا لائحہ عمل اختیار کیے بیٹھے ہیں یہ بڑا اہم سوال ہے۔ میرا خیال ہے امریکہ کی حیثیت کو جذباتی نعروں کی گونج میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر ایسا بھی نہیں کہ ہر امریکی حکم اور خواہش کے سامنے سر تسلیم خم کر لیا جائے۔

دنیا پھر سے دو دھڑوں میں تقسیم ہونے جا رہی ہے۔ روس، چین، پاکستان اور ایران و جرمنی کا کردار اہم ہو گا، جبکہ دوسرے بلاک میں امریکہ اور نیٹو کی دیگر طاقتیں پنچہ آزمائی کریں گی۔ اسرائیل اس سارے کھیل میں امریکہ کا فرنٹ لائن سٹرائیکر ہے، پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).