پاکستان کی کِشو بائی ”سو با اثرخواتین“ کی فہرست میں شامل


بلند سوچ، وسیع حوصلہ اور گہرے احساس کی مالک کِشو بائی تھر کے بے رحم صحرا کی باسی ہیں۔

جس دھرتی پہ رہنے والوں کے لیے پیاس کی شدت اور خوراک کی کمی سے مر جانا معمول کی بات ہو۔ جہاں عام سی بیماریوں کا علاج بھی موت کی صورت ملتا ہو اور جہاں کے با اثر وڈیرے کم حیثیت انسانوں سے چوپایوں جیسی مشقت کرانا اپنی روایت سمجھتے ہوں۔ کِشو بائی نے اسی بے مہر دھرتی پہ سر اٹھا کر جینے کے ارادے باندھے اور پھر ان ارادوں کی تکمیل کے لیے ڈٹ گئیں۔ کِشو بائی کا تعلق کوہلی برادری سے ہے۔ تھر میں آباد ہندووں کے سماجی نظام کے مطابق کوہلی نچلی ذات کے ہندو شمار ہوتے ہیں۔

آپ ایک خاتون ہوں اور آپ کی رہائش تھر کا صحرا ہو، تعلق آپ کا ایک اقلیت سے ہو اور وہ اقلیتی برادری بھی آپ کو اپنے بیچ ایک نیچ کی حیثیت دیتی ہو تو ایسے میں اپنے اور دوسروں کے حقوق کے لیے سوچنا کسی انتہائی بیدار مغز اور باہمت انسان کا کام ہے اور کِشو بائی بالکل ایسی ہی ایک ہستی ہیں۔

یہ جب تیسری جماعت میں پڑھتی تھیں تو عمر کوٹ کے ایک جاگیردار نے انہیں پورے خاندان سمیت اغوا کرکے ان سے تین سال تک جبری مشقت لی۔ تھر میں لاچار اور بے آسرا افراد کے ساتھ ایسا سلوک عام سی بات ہے۔

پولیس کی مدد سے جاگیردار کی غیر قانونی قید سے چھوٹنے کے بعد کِشو بائی اپنے گھر والوں کے ساتھ میرپور خاص آ گئیں۔ انہیں کتابیں بہت اچھی لگتی تھیں۔ ان کے والد نے بھی غربت اور بے بسی کے باوجود انہیں ابتدائی تعلیم دلائی۔ تاہم انیس سو چورانوے میں جب وہ ابھی نویں جماعت ہی کی طالبہ تھیں تو ان کی شادی کردی گئی۔ کشو بائی نے لیکن شادی کے باوجود اپنی پڑھائی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور تعلیمی منازل طے کرتے کرتے بالآخر دو ہزار تیرہ میں سندھ یونیورسٹی جامشورو سے ایم اے سوشیالوجی کا امتحان پاس کرلیا۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد باہمت کشو بائی نے اپنے جیسی بہت سی عورتوں اور پسے ہوئے طبقات کی زندگی میں بہتری کے لیے عملی جدوجہد کا آغاز کیا۔ انہوں نے تھر میں جبری مشقت کے شکار افراد اور گھرانوں کی مدد پر خاص توجہ دی اور اس مقصد کے لیے مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کیا۔

جبری مشقت کی غلامانہ زندگی گزارنے والے گھرانوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کوششوں کی خاطر کرشنا کماری نے بعد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم کا انتخاب کیا۔ پیپلز پارٹی نے کرشنا کماری کے عزم، حوصلے اور جدوجہد کو دیکھتے ہوئے انہیں سینٹ کی مخصوص نشست کے لیے ٹکٹ دیا اور وہ رواں سال دو ہزار اٹھارہ میں اُسی صوبے سے پاکستان کی سینیٹر منتخب ہو گئیں جس صوبے کے ایک قصبے میں ان سے کئی سال جبری مشقت لی گئی تھی۔

بی بی سی ہر سال اس دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کے لیے عملی جدوجہد کرنے اور نوجوانوں کے لیے شاندار مثال قائم کرنے والی سو خواتین کے ناموں کا انتخاب کرتا ہے اور اس سال دو ہزار اٹھارہ میں کِشو بائی یعنی سینیٹر کرشنا کماری کو بھی اس لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ بی بی سی کی ”سو با اثر خواتین“ کی فہرست میں شمولیت کیشو بائی یا سینیٹر کرشنا کماری کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے بھی بڑے اعزاز کی بات ہے۔

جبری مشقت کی زندگی سے سینیٹ کے ایوان اورسینیٹ کے ایوان سے عالمی سطح پر خدمات کے اعتراف تک کی یہ کہانی۔ زندگی کی جدوجہد میں تھک جانے والوں کے لیے ایک حوصلہ افزا پیغام رکھتی ہے۔

شاہد وفا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شاہد وفا

شاہد وفا ایک براڈکاسٹ جرنلسٹ اور لکھاری ہیں۔ معاشرے میں تنقیدی سوچ اور شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں اس لیے معاشرتی ممنوعات کو چیلنج کرنے، جمود توڑنے اور سماجی منافقت کو بے نقاب کرنے کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

shahid-wafa has 31 posts and counting.See all posts by shahid-wafa