کرپشن کا بے لگام گھوڑا اور اناڑی صحافتی جوکی


بلوچستان میں ہمیشہ سے احساس محرومی کی ایک آواز سنائی دیتی ہے اس آواز میں حقیقت ہے تو جان بھی ہے، اور کچھ سوالات بھی پوشیدہ ہیں، تلخ حقیقت یہ ہے کہ جہاں دیگر لوگ ذمہ دار ہیں وہیں پر اس نعرے کی چھتری تلے چند کام چور و کرپٹ بلوچستانیوں نے اپنے مفادات کا نہ صرف بازار گرم کر رکھا ہے بلکہ صوبے کے نظام کی بنیادیں اپنی نا اہلی اور بے پناہ کرپشن کی وجہ سے کھوکھلی کردی ہیں۔ اور اپنی آنے والی نسلوں کو اپاہج بنا دیا ہے۔

تعلیم سے لے کر صحت تک یہاں گذشتہ تیس سال میں ایسے لوگوں کو اہم ذمہ داریاں دیں، جن کی سوچ پندرہ سالہ بچے سے بڑی نہیں تھی۔ جنہوں نے ہمیشہ ٹافی کی تلاش کی، دانت کی فکر نہ کی۔ صوبے کے احساس محرومی کا رونا رونے والے قوم پرست اقتدار ہوں یا وفاق پرست کے نام نہاد دعویدار ہوں، یا پھر اسلامی نظام کے نفاذ کے دعوئے دار، کسی نے عام آدمی کا بھلا نہیں کیا۔ حکومت بلوچستان نے 2016 میں ورلڈ بینک کے ساتھ اسلام آباد میں بیٹھ کر ایک پروجیکٹ کے لئے 22 ارب روپے سود پر لینے کا معاہدہ سائن کیا۔

جس میں کل رقم تقریبا اس وقت 22 ارب روپے تھی، جبکہ موجودہ مارکیٹ میں ڈالر کی بڑھتی شرح کے حساب سے کل رقم، تا دم تحریر 22 ارب سے بڑھ کر 27 ارب روپے بن چکی ہے۔ معاہدے کی رو سے حکومت بلوچستان آئندہ 25 سالوں تک 2 فیصد کے حساب سے 7 ارب روپے سود ورلڈ بینک کو ادا کریگی۔ اور اگر مقررہ مدت تک ہم منصوبے پر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہے تو رقم لئے بغیر، مزید 50 پیسے کمیٹمنٹ چارج کی صورت میں ورلڈ بینک کو ادا کرنے پڑیں گے، جو کہ ڈھائی روپے بن جائیں گے، اور ہم 7 ارب کے بجائے 9 ارب روپے سے زیادہ سود ادا کریں گے۔

اس معاہدے کا مقصد، جو کہ سرکاری دستاویز میں بیان کیا ہے۔ کہ حکومت بلوچستان، ورلڈ بینک گروپ کے ادارے، ایسوسی ایشن برائے بین الاقوامی ترقی ( IDA) کی 200 ملین ڈالر کی امداد، محکمہ آبپاشی و دیگر محکمہ جات، نجی شعبہ اور بلوچستان کے عوام کی معاونت سے مربوط پروگرام برائے انتظام و ترقی وسائل و ذرائع آب، بلوچستان جس کا کام 2016 میں شروع کیا جائے گا جبکہ 2022 میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔ اس پروگرام کے ذریعے ناڑی طاس اور پورالی طاس میں مربوط انتظام و ترقی و سائل و ذرائع آب کے منتخب ترقیاتی منصوبوں پر کمیونٹی یا مقامی آبادی کے تحرک و شمولیت کے ذریعے عمل درآمد کروانا تھا۔

اس معاہدے کو دستخط کے بعد اس کو قانونی بنانے کے لئے تگ و دو شروع کردی گئی۔ یعنی جو کام پہلے کرنا تھا وہ اب کیا جارہا ہے گزشتہ 3 سال سے ایریگیشن ڈپارٹمنٹ بلوچستان وزیراعلی کو سمریاں ارسال کرتا رہا ہے۔ کہ بعد از معاہدہ اس معاہدہ کو قانونی شکل دینے کے لئے وزیراعلی ان کو بعد از معاہدہ، معاہدہ کرنے کی اجازت دے کر اس اقدام کو قانونی بنائے۔ لیکن تاحال کوئی وزیراعلی اس کی منظوری دینے کو تیار نہیں اور نہ ہی یہ ذمہ داری اپنے سر لینے کو۔ اس وجہ سے سمریاں غیر منظور کرکے واپس کردی جاتی ہیں۔

اس معاہدے اور پروجیکٹ کا تیکنیکی جائزہ لینے کے بعد کچھ سوالات جنم لیتے ہیں کہ اس پروجیکٹ کو عملی جامہ پہنانے سے لے کر اسٹاف کی تعیناتی اور سود کی ادائیگی تک ذمہ داریاں خالصتا صوبائی معاملہ تھا اور ہے۔ آخر ایسی کیا آن پڑی تھی کہ اتنے مہنگے داموں ورلڈ بینک سے سودا کیا گیا۔ جبکہ ماضی میں ورلڈ بینک سے سب سے مہنگا ترین ریٹ 75 پیسے ہے۔ اگر یہ منصوبہ اتنا ہی ضروری تھا تو اس پر گزشتہ 3 سال سے کام شروع کیوں نہیں کیا گیا؟

اور پروجیکٹ صرف تنخواہوں کی ادائیگی اور گاڑیوں کی خرید و فروخت تک ہی گزشتہ تین سالوں سے کیوں چلایا جارہا ہے؟ صوبائی حکومت کی ناکامی و مجرمانہ غفلت یہاں عیاں ہوتی ہے۔ کہ ذمہ داریوں کا احساس کرنے کی بجائے حصہ داری دے کر اپنے آپ کو احتساب سے محفوظ رکھو کی پالیسی اپنائی گئی۔ ایک ارب 5 لاکھ روپے کی خطیر رقم سے ایک انجینئرنگ فرم کی خدمات حاصل کی گئیں، جس کا مقصد پروجیکٹ کو ٹیکنیکل سپورٹ فراہم کرنا تھا۔ پروجیکٹ پر کام کی نوعیت یہ ہے کہ صرف ایک ٹینڈر کرایا گیا ہے جس کے لئے کنٹریکٹر کو ٹھیکے کی کل رقم سے 10 فیصد 25 کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں جس کے فرم کی دستاویزات بعد میں جعلی نکلیں۔ 25 کروڑ رقم تاحال کنٹریکٹر کے اکاؤنٹ میں پڑے ہوئے ہیں۔ جب کہ اس کی سود کی رقم حکومت بلوچستان ادا کررہی ہے۔

پروجیکٹ میں ڈائیریکٹرز مطلوبہ اہلیت پورا نہ کرنے کے باجود تعنیات کرنے کی غفلت کا مرتکب کون ہوا؟ پروجیکٹ کے لیے لازمی تھا کہ کم از کم گریڈ 19 کا افسر اس کا پروجیکٹ ڈائریکٹر بنایا جاتا۔ لیکن گریڈ 18 کے سول انجینئرز کو تعنیات کیا گیا۔ پروجیکٹ پانی کا ہے جس کا واٹر ریسورس انجنیئر ہونا چاہیے تھا جبکہ حکومت سول انجنیئر کو پی ڈی لگا دیا ہے۔ یہاں صرف غفلت کا مظاہرہ حکومت نے نہیں کیا ہے بلکہ اس پروجیکٹ کے موجودہ پی ڈی کو ایک اور اہم پروجیکٹ جو کہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے تعاون سے 15 ارب روپے واٹر ریورس پروجیکٹ کے پی ڈی کا اضافی چارج بھی دے رکھا ہے، یعنی گریڈ 18 کے سول انجینئر کو مجموعی طور پر پر 45 ارب روپے کے دو منصوبوں کا سربراہ بنایا ہوا ہے، سود کی رقم دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟

حیران کن بات ہے کہ صوبائی خود مختاری کی بات کرنے والے قوم پرستوں نے اپنے آپ کو احتساب اور آڈٹ پیروں سے بچانے کے لئے اس پروجیکٹ کے سود کی ادائیگی تو بلوچستان حکومت کے ذمے کردی لیکن پی ڈی کے ساتھ سیگنیٹری یعنی چیک پر دستخط کرنے کا شریک اختیار اکاؤنٹنٹ جنرل کے ایک افسر کو رکھا گیا ہے جو کہ وفاقی محکمہ ہے۔

پروجیکٹ کا مقصد تاحال تو پورا نہیں کیا جاسکا لیکن کابینہ کی منظوری کے بغیر اتنے بڑے قرضے لینا۔ اور پروجیکٹس کو عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کارآمد بنانے کی بجائے اپنی جیبیں بھرنا کہاں کی قوم پرستی یا صوبہ پرستی ہے؟ آئندہ اس طرح کا کوئی صوبے کے نقصان میں معاہدہ نہ ہو حکومت بلوچستان کو پالیسی واضح کرنا ہوگی کہ کس گریڈ کا افسر غیر ملکی اداروں سے صوبے کے لئے پیسہ سود پر لے سکتا ہے اور اس کی وزیراعلی کی تحریری منظوری مشروط بنا نا ہوگی۔ نہیں تو یہ سب چلتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).