‪ فیض فیسٹیول اور اصلی فیض


کچھ دن قبل کیمپس میں موجود کچھ دوستوں سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے روز تیسرا سالانہ فیض میلہ سجنے والا ہے۔ فیض کے اک سچے عاشق کی حثیت سے طبیعت میں بے چینی سی پیدا ہوئی اور بڑی بے صبری سے مقررہ دنوں کا انتظار شروع کر دیا۔ یہ خبر سننے کے بعد لاشعوری طور پر ذہن میں اس خیال نے رومان سا پیدا کیا کہ چلو تین کے لیے ہی سہی یونیورسٹی کے روز مرہ کے معمول سے تو چھٹکارا ملے گا۔ پورے تین دن تک فیض کے فلسفئہ زندگی کی باتیں کرنے اور سننے کو ملیں گیں۔

کیمپس میں موجود گھٹن کچھ کم سی محسوس ہونے لگی۔ کیوں کہ پنجاب یونیورسٹی ہر کچھ عرصہ بعد ایک مذہبی جنونیت پسند گروہ، جس کو انتظامیہ کی مکمل حمایت حاصل ہے، کی وجہ سے میڈیا کی زینت بنتی ہے۔ اور پھر ایک آدھ ہفتہ میں چیزیں اپنے معمول پر آجاتی ہیں اور میڈیا کوئی نئی خبر کے ملنے تک جامعہ سے بے خبر اپنے کاروبار میں مگن ہو جاتا ہے۔ لیکن بیچارے طالب علم، اور خاص طور ترقی پسند طلب علموں، کی آئے روز شامت آجاتی ہے۔ خیر یہ تو ہمارے کیمپس میں معمول کی بات ہے اور آئے روز “یورپی ایجنٹوں” اور ” غداروں” کو اخلاقیات اور مذہب کا درس دیا جاتا ہے۔

مجھے امید ہے کہ آپ میری گھٹن سے پوری طرح اب واقف ہو گئے ہوں گے۔ فیض کا نام سنتے ہی ہم نے سوچا جو چاہیں گے بولیں اور جو من میں آیا کریں گے۔ نہ کوئی مذہب کی دھونس جمانے والا ملے گا نہ ہی کوئی اخلاقیات پر درس دینے والا ہوگا۔ آزادی کے متوالے کی محفل میں پابندیاں تھوڑی ہوں گی۔

الحمرا پہنچتے ہی کھانوں کے سٹالز کی ایک لمبی قطار دیکھ کر یوں محسوس ہوا کہ کسی کی دعوت ولیمہ میں غلطی سے آ گئے ہیں لیکن دیواروں پر ماجود فیض کی تصویروں پر نظر پڑی تو احساس ہوا نہیں بھائی یہ تو فیض صاحب کی ہی محفل لگتی ہے۔ عین اقبال کے مجسمے کے نیچے مہنگے ترین پبلشرز کی کتابیں سجی دیکھی تو کتاب کی محبت موہوم سی ہو کر رہ گئی اور کتاب کی عظمت سے زیادہ قیمت پر جمی نظروں نے دل سے کہا بھائی یہاں سے نکلتے بنو، یہ تمہاری جیب کے بس کا کام نہیں۔

جس سفاک انداز میں فیض صاحب کو کمرشلائز کیا گیا تھا اس سے تو یوں لگتا تھا کہ فیض صاحب کوئی سامراجی دنیا کی بہت بڑی شخصیت گزرے ہیں۔

کچھ لوگوں کو وہاں پر یہ کہتے سنا کہ اچھا شغل میلہ ہے اور شہر میں اس طرح کی سرگرمیاں ضروری ہیں۔ کوئی بھی عاقل انسان سیروتفریح پر تو کبھی کوئی اعتراض نہیں کر سکتا لیکن میں ان حضرات سے پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ خدا کے بندو، فیض کیا کوئی کامیڈین یا انٹرٹینر تھے؟

جہاں تک ممکن ہو سکتا تھا ہم ہر سیشن میں گئے۔ لیکن چند ایک لوگوں کے سوا (وہ بھی رسمی سا) فیض کا ذکر کہیں بھی سننے کو نہ ملا۔ فیض کیا تھے؟ ان کا فلسفئہ زندگی و سیاست کیا تھا؟ وہ پاکستان میں کونسا سیاسی نظام چاہتے تھے؟ وہ پاکستانی معاشرے کو کن بنیادوں پر کھڑا کرنا چاہتے تھے؟ آج کا نوجوان کس انداز میں فیض کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتا ہے؟ یہ وہ تمام سوالات تھے جن کا جواب دینے والا کوئی موجود نہیں تھا۔ بلکہ وہاں پہ ہر بندہ فیض کے نام کے سائے تلے اپنا اپنا چورن بیچ رہا تھا۔

کوئی اپنی کسی کتاب کی لانچنگ کے چکر میں نظرآیا تو کسی کو ہم نے اپنی “تبدیلی” کا دفاع کرتے سنا۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ فیض کے نام پر سجی محفل میں فیض کے نظریہ کی اور عوام کی سرے سے ہی کوئی بات نہ ہو؟ بلکہ آپ فیض کو ایک انقلابی کردار سے نکال کر سامراجیت کی گھناؤنی شکل میں عوام کے سامنے پیش کرو۔ آپ کے بلائے ہوئے لوگ مسخ شدہ فیض کو لوگوں کے سامنے پیش کریں۔ فیض کو اس نظام کے نمائندہ کے طور پر پیش کیا جائے جس کے خلاف انہوں ساری زندگی جدوجہد میں گزار دی۔

سب سے بڑا ستم تو یہ ہے کہ فیض کے اصل وارث ترقی پسندوں اور اشتراکیت پسند لوگوں کو پینلز سے نکال دیا گیا۔

پروفیسر عمار علی جان کو محض اس لیے نہیں بولنے دیا گیا کہ وہ فیض کے اصلی راستے پہ چل نکلے ہیں۔ اس راستے پر جو طالب علموں کو اپنے حق کے سلب ہوتے پر اٹھ کھڑا ہونے کی تلقین کرتا ہے۔

فیض فیسٹول تو اپنے اختتام کو پہنچا لیکن چند سوالات نے، ایک طالب علم کی حثیت سے میرے ذہن میں جنم لیا۔ کیا فیض واقعی اس طبقے کے نمائندہ تھے جو آج ان کا اصلی وارث بن گیا ہے؟ کیا فیض اسی کمرشل دنیا میں جینا چاہتے تھے جس میں انہیں پیش کیا جا رہا ہے؟ کیا فیض صاحب نے کبھی زندگی میں اس “مصلحت” کا مظاہرہ کیا جو فیسٹول کی انتظامیہ نے پروفیسر عمار علی جان اور علی وزیر کو بولنے سے روک کر کیا؟

ہم نے جتنا فیض کو پڑھا اور (اور اس فیسٹیول سے پہلے) سنا ہمیں تو فیسٹول والے فیض اور اصلی فیض میں واضح فرق نظر آیا۔

نوٹ۔ ان تمام تر اعتراضات کے باوجود میں ٹینا ثانی صاحبہ، جاوید اختر، ضیا صاحب اور حنیف محمد صاحب کا بے حد شکر گزار ہوں کہ انہوں نے فیض کی محفل میں شرکت کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).