سرکار کی آمد مرحبا


سوائے ابلیس کے جہاں میں،
سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں

الصَّلوةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ
وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا حبیب اللهِ

مولانا ابوالاعلی مودودی مرحوم تفہیم القرآن میں سورہ جن کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے جن عالم بالا کی خبریں معلوم کرنے کے لئے آسمان میں سن گن لینے کا کوئی نہ کوئی موقع پا لیتے تھے مگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں آمد سے پہلے یکایک انہوں نے دیکھا کہ ہر طرف فرشتوں کے سخت پہرے لگ گئے ہیں اور شہابوں (جلتے ہوئے سرخ انگارہ پتھر) کی بارش ہو رہی ہے جس کی وجہ سے کہیں ان کو ایسی جگہ نہیں ملتی جہاں ٹھہر کر وہ کوئی بھنک پا سکیں – اس سے ان کو یہ معلوم کرنے کی فکر لاحق ہوئی کہ زمین میں ایسا کیا واقعہ پیش آیا ہے یا آنے والا ہے جس کے لئے یہ سخت انتظامات کئے گئے ہیں –

تفہیم القرآن میں سورہ جن کے حاشیہ نمبر 10 پر لکھا ہے کہ عالم بالا میں غیر معمولی انتظامات دو ہی حالتوں میں کئے جاتے تھے:-

** ایک یہ کہ اللہ تعالی نے اہل زمین پر کوئی عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کیا ہو اور منشائے الہی یہ ہو کہ اس کے نزول سے پہلے جن (شیطان کے پیروکار) اس کی بھنک کو پا کر اپنے دوست انسانوں کو خبردار نہ کر دیں –

** دوسرے یہ کہ اللہ تعالی نے زمین میں کسی رسول کو معبوث فرمایا ہو اور ان انتظامات کا مقصد یہ ہو کہ اللہ پاک کی طرف سے رسول/ نبی کو جو پیغامات بھیجے جا رہے ہوں ان میں شیاطین کسی قسم کی دخل اندازی نہ کر سکیں اور نہ قبل از وقت یہ معلوم کر سکیں کہ پیغمبر کو کیا ہدایات دی جا رہی ہیں –

پس یہ ثابت ہوا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے جنات آسمانوں پر جاتے تھے, کسی جگہ بیٹھ جاتے اور کان لگا کر فرشتوں کی باتیں سنتے تھے اور پھر آ کر کاہنوں, شیطانوں کو خبر دیتے تھے – اس طرح کاہن, شیطان ان باتوں میں نمک مرچ لگا کر اور ایک بات میں 100 سو جھوٹ ملا کر اپنے ماننے والوں سے بیان کرتے – لیکن جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معبوث ہو گئے تو آسمانوں پر زبردست پہرے بٹھا دئیے گئے اور جنات و شیاطین کی آمدورفت کے سلسلہ کو روک دیا گیا – قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے کہ اسی بات کو لے کر جنات اپنی قوم سے کہتے تھے کہ پہلے تو ہم آسمانوں تک چلے جاتے تھے لیکن اب تو سخت پہرے لگا دئیے گئے ہیں اور آگ کے شعلے ہماری تاک میں لگے ہوئے ہیں – اگر ہم میں سے کوئی آسمان تک جانے کی کوشش کرتا ہے تو شہاب ثاقب (جلتے ہوئے سرخ انگارہ پتھر) اس کا پیچھا کرتا ہے اور جھلسا کر رکھ دیتا ہے –

حضرت سعدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شیاطین بعثت اسلام سے پہلے آسمانی بیٹھکوں میں بیٹھ کر فرشتوں کی آپس میں کی جانے والی باتوں کو اچک لیا کرتے تھے – جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معبوث ہو گئے تو ایک رات شیاطین پر خوب شعلہ باری ہوئی جسے دیکھ کر اہل طائف گبھرا گئے کہ شاید آسمان والے ہلاک ہو گئے – انہوں نے دیکھا کہ تابڑ توڑ ستارے ٹوٹ رہے ہیں, شعلے بھڑک رہے ہیں اور دور دور تک راستہ بدل بدل کر ایسے جا رہے ہیں جیسے کسی کا تعاقب کر رہے ہوں – اہل طائف نے گبھرا کر بطور صدقہ غلام آزاد کر ڈالے اور جانوروں کو چھوڑ دیا – آخر عبداللہ ابن عمیر نے ان سے کہا کہ کہ اے طائف والو ! تم کیوں اپنے مال کو برباد کر رہے ہو, تم تو مجھ کو دیکھو اگر ستاروں کو اپنی اپنی جگہ پاؤ تو سمجھو کہ آسمان والے تباہ نہیں ہوئے بلکہ یہ سن انتظامات حضر ابن ابی کبثہ کے لئے ہو رہے ہیں – چنانچہ ان میں جو اہل نجوم تھے, انہوں نے نجوم پر نظر ڈالی تو سب ستارے اپنی اپنی جگہ نظر آئے, تب انہیں سکون ہوا –

سعدی رح مزید لکھتے ہیں کہ شیاطین میں بھی بےچینی پھیلی ہوئی تھی – اس لئے سارے شیاطین اکٹھے ہوکر اپنے سردار ابلیس کے پاس آئے, اس سے شعلے برسنے اور آسمان پر پہرے بٹھانے کی بات کی, اپنی پریشانی کا ذکر کیا – ابلیس نے انہیں کہا کہ زمین کے کونے کونے پر پھیل جاؤ اور مجھے ہر علاقہ کی مٹی لا کر دو – چنانچہ سارے شیاطین زمین کے ہر علاقہ میں گئے اور مٹی اٹھا کر لائے – ابلیس نے تمام علاقوں کی مٹی سونگھی اور پھینکتا رہا – مکہ کی مٹی آئی تو ابلیس یکایک رک گیا – اس کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا, اس کا جسم تھرتھرانے لگا اور اس نے شدید غم زدہ ہوتے ہوئے کہا کہ, “اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں تشریف لا چکے ہیں” –

اس دن تمام شیطانوں اور ابلیس کے پیروکاروں نے بہت غم اور دکھ کیا جبکہ آسمانوں, زمینوں اور تمام جہانوں میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا میں تشریف لانے کا جشن منایا جا رہا تھا – اسی لئے تو کہتے ہیں کہ:-

سوائے ابلیس کے جہاں میں،
سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں

الصَّلوةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ
وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا حبیب اللهِ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).