بد آوازی بھی عذاب سے کم نہیں


اچھی آواز قدرت کا انمول عطیہ ہے جو سامع پہ سحر انگیز کیفیت طاری کر کے اپنی جانب راغب کرتی ہے۔ جبکہ بھدی اور بری آواز انسان کی دل آزاری اور کوفت کا باعث بنتی ہے۔ آج کے ترقی زدہ دور میں لاؤڈ سپیکر اور ساؤنڈ سسٹم نے سونے پہ سہاگے کا کام کیا ہے جن کے غلط استعمال سے ایسے بد آواز حضرات معاشرے میں بے چینی اور شور کی آلودگی کا موجب بھی بن رہے ہیں۔ سمعی آلودگی فی زمانہ انسانی صحت، اعصاب اور رویوں پر منفی اثرات مرتب کرہی ہے۔

لوگ دماغی امراض کے ساتھ ساتھ چڑ چڑے پن کا شکار ہورہے ہیں۔ آج بہت سے سیاسی، سماجی اور مذہبی راہ نما جو خوش آوازی کی خوش فہمی میں مبتلاہیں وہ عوام کو ذہنی و نفسیاتی مریض بنا رہے ہیں۔ مختلف تقریبات، محافل اور مساجد میں اس طرح کی آوازوں کے الاپ اور سخن وری معمولات بن چکے ہیں۔ کچھ حضرات تو مائیک چھوڑنا توہین سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک حکایت بڑی دل چسپی کی حامل ہے۔

ایک انتہائی بد آواز شخص مراکش کی اک بستی میں رہتا تھا جسے اذان دینے کا بہت شوق تھا۔ نمازی اور عام لوگ اس کی آواز سے بہت تنگ اور نالاں تھے مگر احترام اذان کے باعث خاموش رہتے۔ دیگر افراد نے کئی بار اذان کہنے کی کوشش کی مگر موصوف سب سے پہلے مسجد میں براجمان ہوتے۔ آخر تنگ آکر بستی والوں نے اسے سوداگروں کے قافلے کے ساتھ دوسرے ملک بھیجا تاکہ کچھ روز تو کوفت سے نجات ملے۔ دو دن بعد قافلے نے اک غیر مسلم بستی کے قریب پڑاؤ ڈالا۔ حسب عادت مذکورہ آدمی وقت سے پہلے ہی اذان دے دیتا اور کسی اور کو اذان کا موقع ہی نا ملتا۔

قافلے والے اور قریبی بستی کے لوگ سبھی اس کی بد آوازی کے موجب سخت پریشان تھے۔ قافلے نے دو دن کے بعد اگلی منزل کی جانب روانگی کی تیاری کی۔ قافلہ روانہ ہونے لگا تو قافلے والوں نے اس بستی کا سردار اپنے غلاموں کے ہمراہ آتے دیکھا۔ سب پریشان ہوئے کہ یقینا بستی کے لوگ اس بد آواز شخص کی شکائیت کرنے آ رہے ہیں۔ قافلے میں شامل چندافراد خوش بھی تھے کہ مؤذن کی سرزنش ہو گی۔ مگر جب بستی کا سردار اپنے لوگوں سمیت پہنچا تو اس نے آتے ہی کرخت اور بھدی آواز والے موذن کی بابت دریافت کیا۔

اہل ِ قافلہ خائف ہوئے کہ نا معلوم ان کے ساتھ کیا سلوک ہو۔ جب اس موذن کو سردار سے ملایا گیا تو سردار نے بڑے ادب سے سلام کیا اور بولا ”حضور آپ کا احسان میں زندگی بھر بھلا نہیں سکتا۔ یہ کہہ کر اس نے ہیرے جواہرات کے بھرے طشت اس مؤذن کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ میری بیٹی اسلام قبول کرنے کے لئے بضد تھی اور کسی طرح بھی اپنے ارادے سے باز نہیں آرہی تھی مگر کل سے آپ کی کی بھدی آواز میں مسلسل اذانیں سن سن کر آپ کے مذہب سے بد دل ہوکر اپنا ارادہ بدل چکی ہے۔ یہ سن کر قافلے والوں نے بمشکل ہنسی روکی۔

اک اور حکایت ہے کہ شیخ سعدی سماع کے بڑے شائق تھے جبکہ ان کے استاد سماع کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے استاد نے کئی بار منع بھی کیا مگر آپ چھپ کر بھی شوق پورا کر لیتے۔ آخر ایک شب اک انتہائی بھدی اور کرخت آواز کے حامل قوال سننے کا اتفاق ہوا اور اتفاق سے پوری رات ان قوالوں کو سننا پڑا۔ استاد کی نصیحت جو کام نہ کر پائی وہی کام بد آواز قوال کی لحن نے کر دیا اور شیخ سعدی سماع سے ہی تائب ہو گئے۔

ہمارے معاشرے میں ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ ایسے لوگ کس طرح عوام کو اپنی کرخت آواز اور دل آزار لہجے سے پریشان کرتے ہیں اور عوام بادل نخواستہ اس اذیت کو مذہبی و اخلاقی رواداری سے برداشت کر رہے ہیں۔ لاؤڈ سپیکر پر پابندی سے ریلیف ملا ہے مگر دیہی علاقوں میں اب بھی یہ سلسلے جاری ہیں۔ شادی و مرگ کی تقریبات میں، گاڑیوں، ٹریکٹروں اور کچھ مذہبی محافل میں شریک لوگ پورے علاقے کو بلا وجہ ڈسٹرب کرتے ہیں۔ اخلاقی، مذہبی اور سماجی لحاظ سے یہ کسی صورت بھی مناسب نہیں ہے۔ علماء کرام، اہل اختیار اور تعلیم یافتہ طبقے کو اس حوالے سے عام لوگوں کی تربیت کا بیڑہ اٹھانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).