پردیس میں پسنجر سیٹ سے کارگو تک کا سفر


زندگی اس وقت اک بیکار شے لگتی ہے جب انسان مٹی کی کھدی قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر دیکھے۔ مگر اس وقت تو کمال ہی بیکار لگتی ہے جب انسان ہوائی جہاز کی پیسنجر سیٹ پر بیٹھ کر چمکتے دمکتے شیشے جیسے ملک میں جائے، بڑی اونچی اونچی گاڑیوں میں پھرے، کارپڈڈ سڑکوں پر سفر کرنے کا عادی ہو جائے، دنیا کے مہنگے ترین کپڑے، خوبصورت ترین گھر، اجلے روشن علاقے مگر جب واپس جائے تو ایک تابوت میں بند ہو کر کارگو کے جہاز پر سامان کے ساتھ ڈھو کر، ”فلاں فلاں کی انسانی باقیات“ کی شہہ سرخی کے ساتھ۔

تب اس کارگو کو سنبھالنے والوں ڈھونے والوں کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کتنے بڑے گھاٹے کا سودا رہی ہے۔ زندگی کتنا بڑا دھوکا ثابت ہوتی ہے جب اس کے منہ سے نقاب الٹا جاتا ہے۔ کسی بھی وجہ سے، سہانے مستقبل کی خاطر یا ڈراؤنے حال سے ڈر کر پردیس اور پردیسی زندگی کی سختیاں تو ہم دن رات دیکھتے اور سمجھتے رہتے ہیں مگر اس کی انتہا کا اندازہ تب ہوتا ہے جب آپ کا کوئی قریبی بیمار پڑ جائے یا رحلت فرما جائے۔ زندگی تب ایک بار پھر چیخ چیخ کر دہائی دیتی ہے کہ یہ تھی وہ لش پش والی چمکدار زندگی جس کا مصنوعی لبادہ ہم سالوں چہرے پر ماسک کی طرح لپیٹے خود کو اور دوسروں کو آسائشیں دکھاتے اور ستائشیں سمیٹتے رہے۔

پچھلے دنوں اک قریبی عزیز کی پردیس میں رحلت کی خبر آئی۔ ہم لوگ جو گھر والوں، قریبی عزیزوں، خاندانوں اور اپنے معاشرے سے پرے دور کی حدوں میں رہتے ہیں ہمیں اکثر قریبی عزیزوں کی شادیوں کی تصاویر اور ان میں شمولیت محض واٹس اپ پر اور وفات کی خبر اک فون کال پر ملتی ہے، اور ہم زمان و مکاں سے ادھر خوشی اور مزا کرنے کی کوشش میں کچھ دیر ہنس لیتے ہیں یا دکھ اور اذیت کی، جناذے اور میت کی سب رسومات سے الگ تھلگ کوئی شام یا رات اپنے خالی گھروں کے کمروں میں دروازہ بند کر کے تنہا بیٹھ کر کچھ آنے اور کچھ نہ آنے والے آنسو پی کر یہ شب مرگ منا لیتے ہیں اور پھر جلد ہی اگلی دن کے مسائل روزگار ہمیں پھر سے اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں۔

اور کچھ دنوں بعد ہمارے حافظے سے یہ بات اکثر مبہم ہو جاتی ہے کہ فلاں قریبی عزیز یا دوست اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ پھر کسی کو ہمیں یاد کروانا پڑتا ہے کہ اس کی رحلت تو کب کی ہو چکی۔ کیا کیجیے کہ جب تک انسان میت کو اپنی نگاہ سے دیکھ نہ لے، جنازے میں شریک ہو کر سوگ میں کچھ شمولیت نہ کر لے، ذہنوں میں اس وفات کا شمار ہو نہیں پاتا، جانے والے انساں کا کوچ کر جانے پر دل یقین نہیں کر پاتا۔

مگر پچھلے دنوں یہ سب ہمارے بہت ہی قریب ہو گیا، اتنے قریب کہ ہاتھ بڑھاتے تو چھو سکتے تھے، دو قدم چل کر دیکھ سکتے تھے اور کچھ بھی نہیں تو ساتھ کھڑے اس اذیت اور تکلیف کی آگ ضرور ہمارے دامن کی طرف لپکتی تھی جب کوئی قریبی وفات پا جایے، اور جب کوئی قریبی پردیس کی تنہائی میں وفات پا جائے تو پیسنجر سیٹ سے کارگو تک کا سفر کسقدر اذیت ناک ہوتا ہے پہلی بار خوب سمجھ میں آیا۔

اپنی جواں عمری میں ہی کینسر کے موزی مرض میں مبتلا ایک قریبی عزیز بہت عرصے سے تکلیف کاٹتے تھے۔ ڈاکٹرز کی طرف سے جواب آ چکا تھا، پاکستان سے قریبی عزیز آخری ملاقات کے لئے ایک ایک کر کے ائیرپورٹ پر اتر رہے تھے، آکسیجن سیلنڈر پر لگی جان پاکستان پیسنجر سیٹ پر بیٹھ کر جانے کی ضد میں تھی اور گھر والوں کے خدشات ان کو کسی غفلت کی نذر کر دینے سے ڈرتے تھے۔ ایسے سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال، ایسے صاف ستھرے انتظام یہاں اور ایسی نازک حالت مریض کی، کس طرح سے یہ ڈھائی تین گھنٹے کے سفر کا رسک لیا جائے، اور صرف دو تین گھنٹے کا ہی کیوں۔

بڑے شہروں سے دور رہنے والوں، جنوبی پنجاب اور شمالی سندھ سے پردیس جانے والی اکثریت اس کوہ ہمالیہ کے سفر کو جانتی ہے جو ڈائریکٹ انٹرنیشنل پرواز نہ ہونے کی وجہ سے بقیہ سفر کنیکٹڈ فلائیٹس، ریل گاڑی یا بسوں پر کر کے صحت مند لوگوں کے لئے بھی لگ بھگ ایک دن کا سفر پڑتا ہے تو ایسی کمزور حالت میں آکسیجن سیلنڈر پر لگے مریض کو رحیم یارخان تک لیجانا ایک طرح سے اسے خود موت کے منہ میں دھکیلنا تھا۔ سو کسی کی ہمت نہ پڑتی تھی کہ مریض کی اس خواہش کا احترام کرنے کی جرات کی جائے۔

مگر آخر کب تک آخر زندگی کا شعلہ مہنگے ہسپتال میں بھی، صاف ستھرے بستر پر بھی گم ہونا تھا ہو گیا، مگر ایسی خموشی سے کہاں، کہ جاتے جاتے چار اور لوگوں کے پاؤں زمین سے اکھاڑ گیا۔ کہ اپنے ملک اپنی زمین پر کوئی انتقال کر جائے تو صرف ایک بندہ جاتا ہے، سر پر چھت رہتی ہے، پیروں تلے زمین بھی، مگر ایسے پردیس میں جہاں کبھی بھی آپ کو نیشنیلٹی نہیں مل پاتی، جب صرف ایک شخص، اپنے سر پر اپنے ویزے پر فیملی بنانے والا چھوڑ جاتا ہے تو اس کی بنائی فیملی، پر آسائش حالات میں سنبھالے بچے ایک دم سے بغیر چھت، بغیر گھر، بغیر، آسماں کے اور بغیر زمیں کے ہو جاتے ہیں۔

جن بچوں نے کل سکول جانا ہو ایک ہی لمحے میں ان کے سکول چھن جاتے ہیں، وہ گھر جن کے چھ ماہ کے لئے یا سال بھر کے کرایے بھر رکھے ہوتے ہیں ایک ہی ساعت میں کرایے سمیت چھن جاتے ہیں، ہمسایے پرائے ہو جاتے ہیں اور زمین غیر، عرب ریاستوں میں رہنے والے تو ویسے بھی ہر لمحے روزگار چھن جانے سے ڈرتے ہیں، ہرلمحہ اسی خوف میں گزرتا ہے کہ جانے کب اڑتی پتنگ کٹے اور لڑکھنے لگے اور جب سایہ دار شجر ہی گر جایے تو ایک پتنگ ہی نہیں آسماں، ہوا زمیں سب کچھ چھن جاتا ہے۔

اب ایک انساں رخصت ہوا تو دنیا کا ہر شخص ہر قانون اور حکومت ظالم ہو گئی۔ ہسپتال ڈیڈ باڈی دینے اور دکھانے سے انکاری کہ قوانین کے مطابق پہلے ویزا کینسل کروا کر ڈاکومنٹس لائیں۔ انسانوں کی بھلائی کے لئے بنائے گئے قوانین کبھی ان کے سب سے بڑے دشمن ہو جاتے ہیں۔ بیوی بچوں کے ساتھ اگر بھائی، عزیز احباب، اگر کوئی ہیں تو، پہلے سب ماتم اور صدمہ چھوڑیں، دفتروں کی لائنوں میں لگیں، فیسیں بھریں، ویزے کینسل کروایں، ایک ہی رات میں پورے گھر کا ساماں نہیں، پوری زندگی کو صندوقوں میں باندھیں ورنہ عزیز و اقارب بھی نہیں تو پھر چاہے جتنی ہی کمزور بیوی ہو اور جتنے ہی کم عمر بچے ان فارمیلیٹز کا نبھانا فرض ہے، ہر حال میں ہر صورت۔

ایمرجنسی میں جہاں جس کو جتنے کی ٹکٹ ملے، اپنی استطاعت دیکھے نہ دیکھے، جیب میں کچھ بچا ہو کہ نہیں، ادھار پکڑے، قرض مانگے اور اپنے اور بچوں کی واپسی کی نہیں در حقیقت دیس نکالے کی ٹکٹس کروایے۔ کہ یہ ان بچوں کے لئے جو اسی سر زمین پر پیدا ہوے، پلے بڑھے، اب حکومتی اور ریاستی قوانین سے بے خبر، ان کے دیس یہی تھے، گرچہ اس تلخ حقیقت کو بغیر پانی کے نگلنا ہی پڑتا ہے کہ دیس نہ تھے۔ جو زمین ہمیں قبولتی نہیں، وہ دیس کبھی ہو کیسے سکتی ہے۔

اس عمل سے گزریں لیکن پھر بھی ڈیڈ باڈی آپ کے ہاتھ نہیں آتی جسے آپ چھو کر اس کی موت کا یقین کر سکیں، سینہ پیٹ سکیں، کچھ رو دھو کر جی کا غم ہلکا کر سکیں۔ اب ہیلتھ منسٹری جائیں اور اپنے ”انساں کی بقایا جات وصولی“ کی رسید لے لیں، کہ یہیں سے آپ کو رسید دے کر اک شہ سرخی کے ساتھ کہ ”فلاں ابن فلاں کی انسانی باقیات“ اک تابوت میں بند کر کے کارگو کی طرف روانہ کر دی جاتی ہیں۔ پردیس میں اکثر ہر انسان کو اپنی زندگی کی ہر ذمہ داری خود اٹھانی پڑتی ہے۔

یہ خبر ہمیں بھی آج ہوئی کہ صرف زندگی ہی نہیں موت کے بعد بھی پردیس میں انسان کی تنہائی ختم نہیں ہوتی۔ اسے آخری سفر سے پہلے بھی بہت سے سفر تنہا کرنے پڑتے ہیں، صرف تابوت میں بند ہو کر نہیں، سامان کے ڈبوں میں اوپر نیچے ڈھیر پر لدے، بے حس بے جان لکڑی شیشے اور مٹی کے ساتھ۔ وہ انساں جو پسنجر سیٹ پر بھی بیٹھتے ہیں تو ہزار طرح کی تکلیف محسوس کرتے ہیں کبھی سیٹ چھوٹی کبھی اے سی میں خرابی کبھی کسی کے خراٹے سے مسلئہ کبھی سیٹ کا جھگڑا، اسی انساں کی باقیات ایک ڈبے میں بند ہو کر بڑے آرام سے کارگو میں فٹ آ جاتے ہیں۔

اور یوں کئی زندگیاں سامان باندھے ایک ہی دن اور رات میں دیس نکالے کی دو دھاری تلوار سے گزر جاتی ہیں۔ عرب ریاستوں میں کاروبار اور نوکری کے بل پر چلتی محفوظ پرسکون زندگیاں اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہیں۔ ہم تیسری دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں کے لوگ اپنی آج تک اپنے زندہ مزدور کی دیہاڑی تک مناسب طے نہیں کروا سکے سرکاری طور پر کسی بھی ملک سے ہم مردہ جسموں پر رحم کی کیا درخواست کر سکتے ہیں۔ ہمارے سفارت خانے بھی مشکل کی گھڑی میں دروازے اندر سے لگا کر بند ہو جاتے ہیں، سفارتکار چھپ جاتے ہیں، ذمہ دار نکل جاتے ہیں۔ ہم غریب اور مسکین پاکستانیوں کا ملک کے اندر اور باہر اکثر کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).