بارہ وفات سے یوم میلاد کا سفر


ہم سکول پڑھتے تھے تو ربیع الاول کی 12 تاریخ کو بارہ وفات کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ پرائمری کے ابتدائی سالوں میں غالبا اس دن کی چھٹی بھی نہیں ہوتی تھی۔ کوئی جماعت چہارم میں جا کے سنا نواز شریف نے بارہ وفات کی چھٹی کا اعلان کیا ہے۔ اور ہم نے دل ہی دل میں نواز شریف کو دعائیں دی تھیں، کہ بیٹھے بیٹھے مفت کی چھٹی دے ڈالی۔ پھر سال بہ سال پی ٹی وی پہ اس دن ہری جھنڈیاں، ہری پگڑیاں اور ریلیاں دکھائی جانے لگیں۔

اب خیر سے یہ ریلیاں، پگڑیاں اور جھنڈیاں ایک مکتب فکر کے نزدیک انتہائی متبرک اور دین کا حصہ قرار پا چکی ہیں۔ ہری پگڑیوں اور جھنڈیوں والے دوستوں کو بس اتنا یاد دلا دیں کہ اب سے 15 برس اُس طرف یہ چیزیں نہیں تھیں تو مرنے مارنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ بلکہ آپ کو شاتم رسول اور قابل گردن زنی قرار دیا جاتا ہے۔

میلاد منانا بجا، ذکر مصطفی کریں اور بکثرت کریں، زہے نصیب! ریلیاں بھی نکالیں، یہ آپ کا حق ہے۔ مگر ان چیزوں کو دین مت گردانیے۔ یہی زمانے کے ہاتھوں بنتی وہ روایات ہوتی ہیں جو عقیدے کی بٹی میں پک کے راسخ ہو جاتی ہیں اور لوگ باقاعدہ دین کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ پھر ان پہ تنقید اور سوال کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ یوں یہ اضافے (بدعتیں ) دین میں بھی اور سماج میں بھی اختلاف کا باعث بنتی ہیں۔

یہی صورت حال بلتستان میں عاشورائے اسد کی ہے۔ ذکر اہلیبیت سے کسی کو مسئلہ نہیں۔ غم حسین منانا سعادت ہے۔ مگر اگر کوئی گرمیوں میں عاشورہ منانے کی خالصتاً مقامی تہذیب و روایت پر سوال کرے تو! الحفیظ، الامان!

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen