ریحام خان سے آف دی ریکارڈ گفتگو


گزشتہ دنوں ٹیگ ٹی وی کینیڈا پر اپنے ٹی وی ٹاک شو کے سلسلے میں پاکستانی نژاد برطانوی صحافی اور وزیر اعظم پاکستان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان سے اہم بات چیت ہوئی۔ قریب ایک گھنٹہ اسکائپ کے ذریعے ان سے اسٹوڈیو میں ریکارڈنگ چلتی رہی اور بہت کچھ کھل کر انہوں نے کہا۔

یہ شو، اب یو ٹیوب پر موجود ہے اگر آپ کے پاس وقت ہو ضرور دیکھیے، سب سے پہلے تو اُن کے معاون بلال عظمت کا شکریہ کہ جنہوں نے اس سلسلے میں تعاون کیا اور تکینیکی مراحل سے لے کر دیگرتمام اُمور کو بھی سنبھالا۔ اس شو کی تیاری کے سلسلے میں قبل از شو بھی بہت سی آف دی ریکارڈ گفتگو ہوئی جس میں پردہ نشینوں کی بے پردگی کا خدشہ ہے اس لئے احتیاط لازم ہے۔

اس انٹرویو کے سلسلے میں نہ تو بلال عظمت نے اور نہ ہی ریحام خان نے کوئی فرمائش کی، یعنی کہ فلاں سوال کر سکتے ہیں اور فلاں نہیں۔ نہ ہی انہوں نے کسی قسم کی موضوعاتی ممانعت فرمائی۔ ویسے تو کسی بھی طرح کے عادل و منصف کے از خود نوٹس کا خدشہ ہمیں درپیش نہ تھا تاہم ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ہم خود ہی محتاط رہے۔ ویسے تو آئی ڈیم کئیر، آج کل اس کا ترجمہ لوگ کچھ یوں بھی کر رہے ہیں کہ ”مجھے بھی ڈیم کی فکر ہے“۔

خیر صاحب، اب صحافتی مروجہ اُصول تو یہ کہتے ہیں کہ آف دی ریکارڈ گفتگو منظر عام پر نہیں لا ئی جا سکتی اس لئے اب کیا کیا جائے، لیکن ”ریحام خان“ نامی کتاب امیزون سے خرید کر پڑھنے کے بعد اور ریحام خان سے آن ائیر اور آف ائیر گفتگو سے دل کچھ لرز سا گیا کہ یہ ہم نے کیا کیا۔

یعنی ہم نے اپنے پیارے پاکستان کی باگ ڈور کیا سمجھ کر کس کے ہاتھوں میں دلوا دی ہے۔ اگرچہ اس میں بھی عوام اور اُن کے ووٹوں کا قطعی کوئی قصور نہیں ہے، کیونکہ یہ وہ کرشماتی انتخابات تھے کہ جن کے نتائج سے ہر جن و انس، چرند پرند پہلے سے ہی واقف تھے۔

بقول راوی، ایک دن ایسا ہوا کہ، بنی گالہ میں شام کھانے کی میز پر نو بیاہی ریحام خان اور بچے ڈنر کے لئے اکٹھے تھے، اور ان کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ عمران خان اچانک کیا بولیں گے، یعنی ان کو اپنی فتح کا کتنا کامل یقین ہے، گویا ایمان کی حد تک، اتنا کہ انہوں نے جوش میں آکر سب کچھ ہی بتا ڈالا کہ کب کیسے اور کون ان کو جتوائے گا۔ یہاں پر ’کون‘ سے ان کی مُراد یقینی طور پر عوام ہی ہوں گے، ویسے یہ ہمارا ایک مفروضہ بھی ہو سکتا ہے یا سادگی کہہ لیجیے۔ یہ مری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو۔

اب ان تمام تر تفصیلات کے لئے یا تو ہم انتظار کرتے ہیں کہ ریحام خان کتاب کی قسط نمبر دوئم شائع ہو یا پھر وہ آف دی ریکارڈ گفتگو کو ہر جن و انس کے لئے عام کرنے کی اجازت مرحمت فرما دیں، کریں تو کیا کریں، شب بھر رہا چرچا تر، ہم ہنس دیے، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ ترا۔ جہاں تک پردے کی بات ہے تو وہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ اب تو صاحب با پردگی کے عادی ہو چکے ہیں۔

واقعات تو بہت ہیں، کیا کیا بتائیں اور کیا چُھپائیں، یعینی ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اسی طرح گھریلو اُمور خانہ داری کے دوران ریحام خان پر جوکچھ منکشف ہوا، وہ ایک الگ داستان ہے، ان کی وارڈروب کی صفائی کے دوران کوٹ کی جیب سے جوالگ باندھ کے رکھا تھا وہ مال برامد ہوا، اُمید ہے مال اچھا ہی ہو گا اور اس کی تفصیل تو کتاب کے صفحہ نمبر پانچ سو سترہ پر موجود ہے، صرف اسے دیکھ کر ہی ہم خود ایک گھنٹہ چکرائے سے پھرتے رہے، تو خود موصوف کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ میں تلخی حالات سے گھبرا کے پی گیا۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ ریحام خان نے شو میں کہا وہ تو پہلے سے ہی یوٹیوب پر موجود ہے اور جو کچھ آف دی ائیر بات چیت ہوئی وہ پیشہ ورانہ امانت ہے۔ ویسے یہ سچ کہنے کی عادت بھی کسی کوکین سے کم نہیں چھٹتی ہی نہیں، شاید اسی اُمید پر قلم کی روانی باقی ہے کہ ہمیں خبر ہے، کہ ہم ہیں چراغ آخر شب۔ ہمارے بعد، اندھیرا نہیں اُجالا ہے۔

آگے بڑھتے ہیں، دسمبر دو ہزار پندرہ کو یہ خبر کس نے ریحام خان کو دی کہ ”عمران کو بول دیا گیا کہ وہ آپ سے جان چھڑا لیں، جس پر عمران نے حامی بھر لی اور کہا کچھ وقت دیں“، اس کے لئے کتاب کے ورق پلٹیں اور اس داستان کو بھی سمجھیے، صفحہ چار سو بتیس پر ستمگری کا دردناک باب بھی موجود ہے۔ ویسے مجھے حیرت ہے کہ کس نے بول دیا اور کیونکر مان لیا۔ اکھڑ مزاج کپتا ن آپ تو ایسے نہ تھے۔

قارئین کرام یقین کریں صفحہ چار سو اڑتیس پیراگراف دوئم کے مندرجات پر نہ تو ہم یہاں گفتگو کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس پر آف دی ریکارڈ کوئی بات ہوئی، ویسے بھی یہ ہر انسان کا اپنا ذاتی فعل ہے اور اس کا ذکر مناسب نہیں، اگرچہ اس نوعیت کے اعمال کسی بھی معاشرے میں مناسب نہیں سمجھے جاتے خاص کر اسلامی معاشرے میں اور وہ بھی ایک ہونے والے وزیر اعظم، نہیں بھئی نہیں، ہرگز مناسب نہیں لیکن اب کیا کیا جائے، جسے پیا چاہے وہی سہاگن، یہاں تو لاڈلے کا معاملہ ہے۔

خدا گواہ ہے کہ ورلڈ کپ کے فاتح عمران خان کے لاکھوں، کروڑوں مداحوں کی طرح راقم بھی یہ گناہ کر چکا ہے، لیکن وزیر اعظم بننے تک کے سفر اور ابتدائی سو دنوں کی حرکات و اعمال وہ بیانات کے بعد اور سونے پر سہاگا، ریحام خان کے انٹرویو اور پھر کتاب کے مندرجات کا تفصیلی مطالعہ کے بعد ذہن میں بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے۔ بقول افتخار عارف کے جواب آئے نہ آئے سوال اُٹھا تو سہی۔ پھر اس سوال میں پہلو نئے سوال کے رکھ۔

اگرچہ ناقدین نے عمران کی مبینہ ناجائز اولاد ٹائیرین وائٹ پر تو بہت کچھ بُرا بھلا اور غریب بچی کے حق میں لکھا اور بولا، لیکن کیا صرف ایک ہی لو چائلڈ یعنی پیار کی صرف ایک نشانی، جی نہیں، ریحام خان کی کتاب کے مطابق تو چار پانچ اور بھی ہیں، اب جب کوئی خود ہی اقبال جرم کر رہا ہو تو پھر سوال کرنا تو بنتا ہے نا، یہ انکشاف اور پھر جنسی تصوراتی لذت پر مبنی گفتگو ”چلو ہانگ کانگ چلتے ہیں، وہاں مجھے کوئی نہیں پہچانے گا“ صفحہ دو سو اکیانوے اور بیانوے نے تو انت ہی کر دی ہے۔

قارئین کرام یہ وہ دریا ہے جسے کوزے میں بند کرنا زیادتی ہوگی، اس پر بات کرنا ضروری ہے، اب اس قدر کڑوا سچ لکھنے اور حقیقت بیان کرنے پر کپتان کے چاہنے والوں کا ناراض ہونا سمجھ آتا ہے لیکن جن رویوں کا اظہار وہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کرتے ہیں، ان پر سر پیٹنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا۔ یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم اس سوچ کے ساتھ جی رہے ہیں کہ ایک نرم و نازک عورت، جسے وطن میں آٹا گوندھنے پر ہلنے سے بھی منع کیا جاتا ہے، ان لوگوں کو اس وجود زن کے رنگ تو کائنات میں چاہئیں لیکن اس ہمت دیکھو، اس صنف نازک کی مجال کیسے ہوئی کہ وہ یہ سب کچھ لکھے، ریحام کی اس بے باکی پر پر ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں، بقول شاعر یہ کیا شبنم کا قطرہ کہہ گیا ہے۔ سمندر تلملا کر رہ گیا ہے۔

افسوس، اس قدر خوفناک واقعات کے بعد بھی ہمارے اخلاقی سمندر میں سکوت ہے، یا تو یہ ایک قومی بے حسی ہے یا پھر جبری زباں بندی، احساس پر پہرہ، یا پھر یہ کہ کتاب انگریزی میں ہے اور قوم کے لئے اس کا وجود غیر مرئی ہے، جس دن اس کتاب کا ایک ورق بھی اردو میں عوام تک پہنچ گیا اُس دن اصل سونامی آئے گا، اس لئے جب تک ہارن نہ بجائیں قوم سو رہی ہے۔ مقننہ ایک دوسرے سے پرانے بدلے چکانے میں لگی ہوئی ہے، قاضی شہر نے اپنی زنجیر عدل بیچ کر لوٹے خرید لئے ہیں اور پھر ان لوٹوں سے پانی بھر بھر کہ ڈیم بنا رہا ہے، سپہ سالار میلاد میں مصروف ہے، اور صحافی بے چارے بے روزگار ہوتے جارہے ہیں۔ گویا تمام ستون اپنی جگہ سے ہلے ہوئے ہیں۔

حالات و واقعات کی روشنی میں ہم تو جہانگیر ترین اور کے پی کے کرپشن کے واقعات پڑھ کر ہی پریشان ہوئے بیٹھے تھے، یہاں تو ہر ورق پلٹتے ہی داستان در داستان ہماری اخلاقیات کا منہ چڑا رہی ہے۔ بہت سارے سوال جمع ہو گئے ہیں، عمران تو مصروف ہیں جواب نہیں دیں گے، سوچا ہے ریحام خان کو ایک اور فون کرنا تو بنتا ہے، کتاب نہ سہی ایک اور کالم تو ہو ہی جائے گا۔ سچ یہ ہے کہ اتنا کچھ جاننے کے بعد بس ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ریحام خان ایک خوش قسمت خاتون ہیں، جنہوں نے ایک نیا جنم لیا ہے۔ ریحام خان، انٹرویو دینے، کتاب کے ذریعے سچ بیان کرنے، اور نئے جنم کی بہت بہت مبارک۔

انیس فاروقی ایک منجھے ہوئے جرنلسٹ، ٹی وی ہوسٹ، شاعر اور کالم نگار ہیں، اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔

انیس فاروقی، کینیڈا
Latest posts by انیس فاروقی، کینیڈا (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

انیس فاروقی، کینیڈا

انیس فاروقی ایک منجھے ہوئے جرنلسٹ، ٹی وی ہوسٹ، شاعر اور کالم نگار ہیں، اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔

anis-farooqui has 19 posts and counting.See all posts by anis-farooqui