بغیر پرچی کے تقریر مت کرو بھائی!


جارج واشنگٹن اور ابراہم لنکن کے بعد فرینکلن ڈی روزویلٹ امریکہ کے عظیم ترین صدر گردانے جاتے ہیں۔ روز ویلٹ نے جب اقتدار سنبھالا تو معاشی بدحالی کے باعث ملک میں سوگ کا سا سماں تھا۔ ہزاروں لوگ فاقوں سے مر چکے تھے۔ بھوک، پیاس، ننگ اور افلاس کا دور دورہ تھا۔ لیکن جب تیرہ سال بعد روزویلٹ کا اقتدار ختم ہوا تو امریکہ سپر پاور بن چکا تھا۔

روز ویلٹ نے لوگوں میں امید پیدا کی۔ حالات سے لڑنے کا حوصلہ دیا۔ اپنی پہلی تقریر میں ہی کہہ دیا کہ امریکیوں کو اگر کسی چیز سے ڈرنا ہے تو وہ صرف ڈر ہے، باقی کچھ نہیں۔ روز ویلٹ ریڈیو استعمال کرنے والا دنیا کا پہلا سیاست دان ہے۔ رات کے وقت قوم سے ریڈیو پے گفتگو کا ایسا سلسلہ شروع کیا وہ ہر امریکی کی روزمرہ کی اور ذاتی زندگی کا حصہ بن گیا۔ لہجہ ایسا تھا کہ پتھر دل بھی پگھلا دیتا، دلیلیں اتنی مضبوط اور عام فہم تھیں کہ عام آدمی سے لے کر مدبروں کو بھی قائل کر لیتی۔ بے لوث پن تھا، شجاعت تھی، ادراک تھا، دوراندیشی تھی۔ دوسری جنگ عظیم آئی تو اس نے کہا ہم نے نہیں لڑنا، چورانوے فیصد امریکیوں نے سر تسلیم خم کر دیے۔

سیاسی اعتبار سے اگر اس دنیا کو آج بھی دو حصوں میں بانٹاجائے تو ایک امریکہ اور دوسرا باقی دنیا ہے۔ سوچیں اسی سال پہلے کیا ماجرا ہو گا۔ باقی دنیا سے ہزاروں میل دور امریکہ نے اپنے قیام کے بعد صرف ایک بڑی جنگ لڑی تھی وہ بھی اپنے آپ سے، جسے ہم سول وار کہتے ہیں۔ روز ویلٹ کو پتا تھا کہ میری قوم نے کبھی سمندر پار کی کسی بیرونی طاقت سے بڑی جنگ نہیں لڑی، یہ اس قابل نہیں ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے منجھے ہوئے جنگجوؤں سے اچانک ٹکرا جائے۔

جنگ کے لئے نفرت اور خوف کا ہونا بہت ضروری ہے۔ کوئی بھی جنگ ان دو عناصر کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی۔ دشمن سے نفرت اور اپنی حفاظت کا دھڑکا۔ فلاسافیکل ڈکشنری والٹیئر کی ایک کتاب ہے جسمیں انہوں نے جنگ کے بارے میں رائے دی ہے کہ شادی شدہ لوگ بہترین جنگجو ہوتے ہیں بھلے جسمانی طور پے کمزور ہی کیوں نہ ہوں۔ دارآصل ان میں اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کی فکر اور دشمن سے نقصان کا خوف با اتم موجود ہوتا ہے جو انہیں آخری سانس تک لڑاتا ہے۔ اس کے برعکس کنوارے مرد اس فکر اور خوف سے مبرا ہوتے ہیں۔ انہیں تو دشمن کی صفوں میں بھی کوئی دلربا مل جائے تو وہ دشمن کے ساتھ ملنے میں بھی کوئی توقف نہیں کرتے۔ کتاب بڑی دلچسپ ہے، وقت ہو تو ضرور پڑھیے گا، انٹرنیٹ پے فری دستیاب ہے۔

روزویلٹ وقت کا انتظار کرتا رہا، اتحادی قوتیں روزویلٹ کا انتظار کرتی رہیں۔ لیکن امریکہ اسلحے اور پیسے کے علاوہ کچھ نہیں دے رہا تھا۔ پھر اچانک روزویلٹ کو خفیہ خبر ملی کہ جاپان امریکہ پے حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ہو سکتا ہے حملہ بڑا ہو۔ مورخیں کہتے ہیں کہ روزویلٹ یہی چاہتا تھا کہ جاپان امریکہ کو اس کی سر زمین پے نقصان پہنچائے۔ بس پھر امریکی حدود میں واقع پرل ہاربر نامی عسکری بندرگاہ پے حملہ ہوا۔

دو ہزار سے بھی زائد لوگ مارے گئے۔ کھڑے کھڑے دو سو سے زیادہ طیارے تباہ ہوگئے۔ درجن بھر بحری بیڑے غرق ہو گئے۔ دوسرے دن جب روز ویلٹ کانگریس سے خطاب کے لئے اٹھا تو اس کے ہاتھ میں نفرت کی تلوار تھی جو خوف کے نیام میں بند تھی۔ امریکی قوم جنگ کے لئے مکمل تیار تھی۔ اچانک جتنی نفرت امریکیوں کے دل میں جاپانیوں کے لئے آئی اتنی نائن الیون کے بعد مسلمانوں کے لئے بھی نہیں آئی۔ تاریخ گواہ ہے۔ امریکیوں نے دو نسلوں سے آباد امریکہ میں پیدا ہوئے، پلے بڑھے اسی ہزار لوگوں کو ایک مہینے میں جیلوں اور کیمپوں میں بند کر دیا کیونکہ ان کے آباؤ اجداد جاپانی تھے۔

امریکہ میدان جنگ میں اتر گیا۔ جنگ جیت بھی گیا۔ سپر پاور بھی بن گیا۔ پوری دنیا کو چلانے کا ایسا انتظام کر ڈالا کہ اب سرور کونین کے دیوانوں کو ملک چلانے کے لئے پیسے کی ضرورت پڑے تو ڈوبتے سورج کی سر زمین کی طرف صدا بلند کرنی پڑتی ہے۔ اگر کوئی جنگ تھمنے کا نام نہ لے رہی ہو تو وہاں سے آئی ایک تار یا معمولی سا ایلچی کافی ہوتا ہے۔ بے شک اس بام مراد پر پہنچنے میں ہزاروں، لاکھوں لوگوں کی تگ و دو اور خون پسینہ شامل ہے لیکن جدید امریکی تاریخ کا رہبر کامل تو روزویلٹ ہی ہے۔

اس سب سے بڑھ کر روزویلٹ کے پاس جو فن تھا وہ فن تکلم تھا۔ اس نے ایسی ایسی باتیں تراشی ہیں کہ لوگ آج انہیں کہاوتوں کی طرح یاد کرتے ہیں، مقررین انہیں ضرب المثالوں کی طرح استعمال کرتے ہیں، استاذہ انہیں حکایتوں کی طرح پڑھاتے ہیں۔ چار دفعہ امریکہ کے صدر منتخب ہونے والے روزویلٹ نے اپنے سیاسی کیرئیرمیں اتنی تقاریر کی ہیں کہ جب انہیں کتابی شکل دی گئی تو چھیالیس ہزار صفحات بنے۔ اس میں تقریروں کے ترمیم شدہ مسودے بھی شامل ہیں۔ یہ انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔

انتہائی دلچسپ بات یہ ہے کہ روزویلٹ اپنی زیادہ تر تقاریر خود لکھا کرتے تھے۔ اس کے لئے پڑھتے بھی تھے اور سپیچ رائٹر کی مدد بھی لیتے۔ اندازہ لگائیں اتنا بڑا لیڈر پرچی سے پڑھ کر تقریر کرتا تھا۔ سب ثبوت موجود ہیں۔ ابھی یو ٹیوب پے جائیں اور فرینکلن ڈی روزویلٹ کی 1933 میں کی گئی بطور صدر پہلی تقریر ہی سن لیں۔ اور پھر یہ بھی پڑھ لیں کہ 11 اپریل 1945 کو مرنے سے ایک دن قبل جیفرسن ڈے کے لئے ایک تقریر لکھی جو ان کی آخری تقریر ثابت ہوئی جسے قدرت نے پڑھنے کی مہلت نہ دی۔

صرف آپ سے یہ گزارش کرنی تھی کہ براہ کرم صاحب بہادر کو بغیر پرچی کے تقریر کرنے پے مت اکسائیں۔ چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے دنیا میں بڑا بڑا مذاق اڑتا ہے۔ اس دنیا میں پٹواریوں کے علاوہ بھی چھ ارب سے زائد لوگ آباد ہیں۔ عربوں کی عزت کریں لیکن اربوں کا کیا قصور ہے۔ مت کریں ایسی زبانی تقریریں جو بطور قوم ہمیں شرمسار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

ٹھیک ہے کہیں کچھ ایسی تقاریر بھی کرنی پڑ جاتی ہیں جنہیں تحریر میں لانا مناسب نہیں ہوتا لیکن ہر تقریر میں تو اوئے توئے نہیں ہوتی۔ جب انسان جذبات پے قابو رکھنے کی صلاحیت سے عاری ہوتو احتیاط لازم ہو جاتی ہے۔ بلخصوص اوسط درجے کے علم اور مناسب مطالعہ کی شدید قلت کی صورت میں فی البدیہہ تقاریر سے ہرگز ہرگز گریز کرنا چاہیے۔ محمد علی جناح نے پرچی سے دیکھ کر تقاریر کیں اور بڑی مشکل سے پرانا پاکستان بنایا تھا آپ زبانی فی البدیہہ خطبات دے کر نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ قائد اعظم ہی کا خیال کرلیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).