فہمیدہ ریاض اور گھٹن کی طویل رات


کچھ ہستیوں کو آپ لفظوں میں نہیں ڈھال سکتے۔ فہمیدہ ریاض ایسی ہی ہستی ہیں۔ زندہ تھیں تو آپ دو باتوں کا اندازہ نہیں لگاسکتے تھے۔ ان کے دل میں درد زیادہ ہے یا لہجے میں پیار زیادہ۔ طبعیت میں مزاحمت کا لاوا پک رہا ہے تو مزاج میں ٹھنڈے پانی کا میٹھا چشمہ کیسے بہتا ہے۔ دماغ کا اس قدر انقلابی شخص دل کا اس اتنا صوفی کیسے ہوسکتا ہے؟

ان کو پڑھ جس قدر مزاج میں ابال آتا ہے، ان سے مل کر اتناہی قرار آتا تھا۔ ان سے جو بھی پہلی بار ملا ایک سوال اس کے ذہن میں ضرور آیا ہوگا، کیا یہ مجھے پہلے سے جانتی ہیں؟

رات ان کی وفات کی خبر آئی تو ایسا تھا کہ بس اب کچھ دیر اکیلے بیٹھا جائے۔ ان کی کتاب ”کبیر“ ڈھونڈی۔ کبیر ان کا بیٹا تھا جو بیس سال کی عمر میں وفات پا گیا۔ فہمیدہ ریاض اپنے بیٹے کے لیے ایک یادگار بنانا چاہتی تھیں، نہ بنا سکیں۔ آخری کتاب کا نام ”موسموں کے دائرے میں“ رکھنا چاہتی تھیں، نہیں رکھا۔ کتاب کا نام ”تم کبیر“ رکھ دیا۔ بھلا اس سے بڑی بھی کوئی یادگار قائم کی جاسکتی تھی؟

مجھے کتاب نہ ملی۔ مجھ جیسا ہی کوئی وعدہ خلاف لے گیا ہوگا یا خود کہیں بھول آیا ہوں گا۔ گوگل پر ان کی نظمیں نکال کر پڑھیں۔ پلکیں بھاری ہوئیں تو یوٹیوب کا رخ کیا۔ ان کی نظمیں سنتے سنتے خواب گاہ میں اترگیا۔ صبح اٹھتے ہی ان کی نظمیں سننا شروع کیں۔ دفتر کے لیے تیار ہوا تو ان کے کچھ مصرعے حافظے کو چمٹ چکے تھے۔ گاڑی آگئی!

گاڑی میں بیٹھا تو ڈیش بورڈ پر محمد حنیف کا تازہ ناول ”ریڈ برڈز“ نظر آیا۔ حیرت سے گردن گھماکے ڈرائیور کا جائزہ لیا کہ ایں ظالم از قبیلہ ما است! میں نے پوچھا، یہ ناول آپ کا ہے؟
جی، کیوں؟
ویسے ہی پوچھا، خوشی ہوئی دیکھ کر۔

جی آدھا پڑھ لیا ہے، مل نہیں رہا تھا، مشکل سے ملا۔
زبردست سائیں زبردست!

آپ جانتے ہیں محمد حنیف کو؟
جی اچھی طرح!

پڑھا بھی ہے؟
ظاہر ہے پڑھ کر ہی جانا ہے۔

سر بہت اچھے رائٹر ہیں محمد حنیف۔
کوئی شک نہیں اس میں!

ویسے فاروق ندیم پراچہ بھی انہی کے طرز کا لکھتے ہیں!
جی، مگر آپ کو دونوں کے اسلوب میں کیا چیز یکساں لگتی ہے؟

دونوں طنز کمال کا کرتے ہیں۔
ہممممم یہ تو ہے! مگر دونوں کے طنز کے پیرائے مختلف ہیں شاید۔
ہاں یہ تو ہے!

سر، پتہ نہیں آپ جانتے ہوں یا نہیں، مگر بہت بڑی خاتون کا رات انتقال ہوگیا!
فہمیدہ ریاض کا؟

جی جی، آپ جانتے ہیں انہیں بھی؟
بہت اچھی طرح!

پڑھا بھی ہوگا۔
آپ کو لگتا ہے بن پڑھے فہمیدہ کا کوئی مداح ہوسکتا ہے؟
جی ہوسکتا ہے، کیوں نہیں ہوسکتا۔

وہ کیسے؟
سر فہمیدہ سے کوئی راہ چلتا ہاتھ ملالے تو بھی دیوانہ ہوجائے، اس قدر اپنائیت اور شفقت تھی ان میں۔

دفتر آنے تک جی بھر کے ہم نے فہمیدہ ریاض کی باتیں کیں۔ ان چند لمحوں میں ہم یوں بے تکلف ہوگئے جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ بلاشبہ رشتوں میں عظیم رشتہ ہم خیالی کا ہے۔ یہ رشتے اور معتبر ہوجاتے ہیں جب آپ کو تازہ زمانے کی بات کرنے میں دقت پیش آرہی ہو۔

میری منزل آگئی۔ میں اترنے لگا تو اس نے کہا، بہت اچھا ہوا بھیا آپ سے ملاقات ہوگئی، رات سے دل میں ایک درد سا تھا، فہمیدہ کو نہ میرے دوست جانتے ہیں نہ گھر والے، ”بات کریں تو کس سے کریں“۔

فہمیدہ ریاض نے حیدرآباد زبیدہ کالج میں ایوب خان کی آمریت کے خلاف سیاہ جھنڈا لہرا کر مزاحمت کا آغاز کیا تھا۔ آج پدرسری معاشرے کے خلاف دوپٹہ لہراتے لہراتے کبیر کا ہاتھ پکڑ کے سوگئیں۔ یعنی جھنڈے اور دوپٹے کے بیچ کے اس عرصہ میں دنیا بہت بدل گئی۔ نہ بدلا تو ایک سوال نہ بدلا۔ ”بات کریں تو کس سے کریں“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).