نواز شریف عدالت میں: ایک انڈسٹری بھٹو نے دوسری شیخ مجیب نے قومیائی


ریفرنس کی سماعت ہفتے میں پانچ دن روزانہ کی بنیادوں پر ساڑھے نو بجے ہوتی ہے میاں نواز شریف ہفتے کو ہفتے کے پانچ دن احتساب عدالت میں اپنی حاضری یقینی بنانا ہوتی ہے ان کا کہنا ہوتا ہے کہ لاہور سے پیشی پر میں اس وقت اسلام آباد کی طرف رخت سفر باندھتا ہوں جب لاہور شہر سویا ہوتا ہے فجر کی نماز راستے میں ادا کرتا ہوں۔

آج میاں نواز شریف نے العزیزیہ ریفرنس میں اپنا بیان قلمبند کروایا انھوں نے بیان قلمبند کرواتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ انیس سو سنتیس سے ہمارا خاندان کاروبار کر رہا ہے میں نے اپنے آپ کو چالیس سال کاروبار سے علیحدہ کر رکھا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں اتنا بے رحم احتساب شاید کسی کا نہ ہوا ہو تین نسلوں کا یہ احتساب کر چکے ہیں مگر ایک پائی بھی کرپشن کی ثابت نہیں کر سکے الحمدللہ میں مطمئن ہوں کہ میرے ہاتھ صاف شفاف ہیں جناب جج صاحب مجھے اللہ کے بعد اس عدالت پر پورا بھروسا ہے کہ مجھے انصاف ملے گا اپ اجازت دیں تو ایک دو واقعات آپ سے شئر کروں جج صاحب نے کہا ضرور کریں۔

میاں نواز شریف گوش گزار ہوئے کہ اٹھاسی میں محترمہ بینظیر کی کابینہ میں فاروق لغاری پانی و بجلی کے وفاقی وزیر تھے اور جنرل زائد اکبر واپڈا کے چئرمین اتفاق فاونڈری کے خلاف بجلی چوری کی تحقیقات شروع ہوئی اتفاق فاونڈری کا ماہانہ بل کروڑوں روپے آتا تھا۔ جب تحقیقات مکمل ہوئی تو الٹا واپڈا ہمارا چھ کروڑ کا مقروض نکلا۔ دوسرا واقعہ کچھ یوں ہے کہ بے نظیر کے دوسرے دور حکومت میں سکریپ کا ہمارا جہاز کراچی بندرگاہ پر روک دیا گیا اور ایک سال کے بعد ہم نے اس کا پنتیالیس کروڑ زائد کرایہ ادا کیا۔ معزز جج صاحب میں سیاست سے کاروبار میں نہیں بلکہ کاروبار سے سیاست میں گیا۔ ہم نے ملک و قوم کی خدمت کی ہے ہم نے اس ملک سے کچھ لیا نہیں بلکہ الٹا دیا ہے سقوط ڈھاکہ کے وقت ہماری ایک انڈسٹری ڈھاکہ اور ایک مغربی یعنی موجودہ پاکستان میں تھی ایک شیخ مجیب اور دوسری بھٹو نے قومیا لی ہمارے حصے میں کچھ باقی نہیں بچا میرے والد نے پائی پائی جوڑ کر دوبارہ کاروبار کو قدموں پر کھڑا کیا۔

بیانات قلمبند کروانے کے بعد میاں نواز شریف اپنی نشست پر جا کے بیٹھ گئے۔ سماعت میں ادھ گھنٹے کا وقفہ ہوا میاں نواز شریف کے داہیں طرف ظفر اقبال جھگڑا اور باہیں طرف بزرگ سیاستدان راجہ ظفرالحق براجمان تھے کمرہ عدالت ان کے چاہنے والوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔

میں نے روزنامہ جنگ کے سئنیر صحافی ایوب ناصر کو کہا کہ میاں نوازشریف اج خوشگوار موڈ میں لگ رہے ہیں ان سے گپ کرتے ہیں۔ سلام دعا کے بعد گفتگو کا سلسلہ چل نکلا ابھی پانچ منٹ نہیں گزرے تھے کہ ڈان رپورٹر اسد ملک نے بھی جوائن کر لیا۔ میاں نواز شریف نے انیس سو ستر کے اخبار کا ایک تراشہ دکھایا جس میں اس وقت پاکستان کے صدر جنرل یحییٰ اتفاق فاونڈری کا دورہ کر رہے ہیں۔ تصویر میں میاں شریف کے ساتھ نواز شریف بھی کھڑے ہیں۔ میاں نوازشریف نے بتایا کہ جنرل یحییٰ نے کچھ فاضل پرزہ جات خریدنے کے لیے دورہ کیا تھا۔

این آر او کی جو باتیں ہو رہی ہیں جھوٹ پر مبنی مفروضہ ہے این آر او کرنے والے لندن سے واپس آکر بیٹی سمیت جیل جاتے ہیں میں نے پوچھا اگر دوسری طرف سے این آر او کے لیے کہا گیا تو پھر آپ کا رد عمل کیا ہو گا؟ بولے قبل از وقت کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ایک سوال کے جواب میں کہ ایون فلیڈ ریفرنس کی سماعت کے وقت آپ کا بیانیہ جارحانہ تھا سول ملڑی تناؤ کی باتیں کرتے تھے اور اب بین بین چل رہے ہیں۔ بولے کہ اس وقت حالات کچھ اور تھے اب کچھ اور ہیں حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا پڑتا ہے۔

کیا یہ یو ٹرن نہیں؟ بولے نہیں اس کو یو ٹرن نہیں کہہ سکتے آج بھی اپنے موقف پر قائم ہوں مگر پے در پے صدمات سے گزر رہا ہوں جس کی وجہ سے خاموش ہوں۔ اہلیہ کی وفات کا صدمہ بھولنے سے بھی نہیں بھول رہا افسوس یہ ہے کہ آخری وقت میں اس کے پاس نہیں تھا۔

اہلیہ کا نام لیتے ہوئے میاں نواز شریف کی آنکھوں میں نمی آ گئی۔ ہم سے پوچھنے لگے آپ بتائیں پاکستان کو ایٹمی ملک بنانے والے، ملک کو اندھیروں سے نکالنے والے، کراچی میں روشنیاں واپس لانے والے، شورش زدہ بلوچستان میں امن لانا میرا جرم ہے اور میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود کرپشن ثابت نہیں کر سکے تو مجھ پر آمدن سے زاید اثاثوں کا کیس بنا دیا گیا۔

میں اگر اس وقت اٹیمی دھماکے نہ کرتا تو آج جنوبی ایشیاء میں بھارت کی بالادستی ہوتی اور پاکستان چاروں طرف جارحیت میں گھرا ہوتا۔ آج کسی کو جرات نہیں کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے۔ میرے خلاف سازشیں کرنے والے کیا سمجھتے ہیں کہ لوگوں کے دلوں سے میاں نواز شریف کو نکال پائیں گے؟ نہیں الحمدللہ میرے چاہنے والے آج بھی موجود ہیں اور اپ دیکھ لیں یہ سب لوگ کہاں کہاں سے آئے ہیں۔

جس وقت میاں نواز شریف ہم سے باتیں کر رہے تھے اس وقت ان کے سیاسی رفیق بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے جن میں پرویز رشید، آصف کرمانی، خرم دستگیر، ایم این اے طاہرہ اورنگزیب، ممبر آزاد کشمیر اسمبلی سحرش قمر، سردار ممتاز، چوہدری جمیل، میاں گل عمر فاروق، ایم این اے میاں جاوید لطیف، مریم اورنگزیب، ملک ابرار، زاہد حامد شکیل اعوان اور میاں نواز شریف کے ذاتی دوست حامد میر بھی موجود تھے۔

میاں نواز نے اپنے وکلاء سے مشورے کے بعد عدالت سے استدعا کی کہ اخباری تراشوں کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے فاضل جج نے کہا بالکل ضرور دیں کوشش کریں کہ مکمل اخبارات مل جائیں کب پبلش ہوا اور کون سے اخبارات میں ہوا؟ میاں نواز شریف نے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے سیاسی رفیق چوہدری تنویر کی ڈیوٹی لگائی کہ یہ کام آپ کے ذمہ ہے۔

سماعت کے دوران میاں نواز شریف نے جب کہا کہ مجھے اللہ اور اس عدالت پر پورا بھروسا ہے کہ مجھے انصاف ملے گا تو جج ارشد ملک نے کہا ریمارکس دیے فیصلہ انصاف پر مبنی ہو گا۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui