تاریخ کا پانسہ اور ناک کا بانسہ


\"wajahatپاکستان میں بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ تاریخ کی ہنڈیا کھولاؤ کے اس نقطے کی طرف بڑھ رہی ہے جہاں مادے میں جوہری تبدیلی جنم لیتی ہے۔ تبدیلی کی یہ نشانیاں خارجہ معاملات میں بھی سامنے آ رہی ہیں جب کہ پاکستان کی داخلی سیاست اور معاشرتی مکالمے میں بھی نئے منظر کھل رہے ہیں۔ امریکی انتخابات کا نتیجہ کچھ بھی ہو، پاک امریکہ تعلقات میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ امریکہ نے زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی فروخت میں رکاوٹ ڈالی گئی۔ ملا اختر منصور کو ہلاک کر کے پیغام دیا گیا کہ پاکستان، افغانستان کے معاملات میں من مانی نہیں کر سکتا۔ پاکستان کی مالی امداد کو جزوی طور پر حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی سے مشروط کیا گیا۔ نیوکلیئر سپلائی گروپ میں بھارت کی شمولیت کی تائید کی گئی۔ طورخم سرحد پر جھڑپ میں امریکہ نے براہ راست مداخلت سے انکار کر دیا۔ اس کے رد عمل میں پاکستان سے اٹھنے والی آوازیں بظاہر جارحیت کا رنگ لئے ہوئے ہیں تاہم ان میں پاکستان کے سیاسی اقتدار کی دوئی اور اداروں میں باہم کشمکش کا عکس نظر آتا ہے۔ ہم نے چین کو امید کی رسی سمجھ کر پکڑ رکھا ہے مگر جاننا چاہئے کہ چین کی دیو قامت معیشت مذہبی انتہا پسندی کو برداشت نہیں کرتی اور یہ کہ چین امریکہ کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ بھارت کے ساتھ اختلافات کے باوجود چین کی تجارت کا حجم پاکستان سے کم از کم دس گنا زیادہ ہے۔ عالمی معاشی فورم کے اجلاس میں روسی صدر پیوتن نے پاکستان کو دوست ملک کہ کر پکارا ہے۔ اب یہ اسی کی دہائی تو نہیں کہ پیوتن کے اظہار دوستی کے جواب میں کہا جائے کہ لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تیری، ہم تیری دوستی سے ڈرتے ہیں۔ خطے میں بھارت، ایران اور افغانستان کا چاہ بہار کے متبادل اقتصادی راستے پر تعاون بہت سے خدشات کا پیش خیمہ ہے۔ خارجی محاذ پر یہ صورتحال خوشکن نہیں لیکن ہر بحران میں مواقع موجود ہوتے ہیں۔ ہم نے پاکستان میں ملکی نصب العین کو کئی عشروں سے خارجہ پالیسی کے تابع کر رکھا ہے۔ اصولی طور پر خارجہ پالیسی ملک کے معاشی مفاد کے تابع ہوتی ہے۔ خارجہ پالیسی کو معاشی مفادات سے بے نیاز ہو کر چلایا جائے تو حتمی تجزیہ میں قومی مفاد کی بنیاد کمزور ہوجاتی ہے۔

ملکی مفاد کو ترجیح دینا ہو تو تین نکات پر غور کرنا پڑتا ہے۔ سیاسی بندوبست، معیشت اور معاشرت کے خد وخال۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مئی 2013 میں بر سر اقتدار سیاسی جماعت انتخابات میں شکست کھا گئی اور پرامن انتقال اقتدار ہوگیا، جمہوریت کے ارتقا میں یہ ایک اہم مرحلہ تھا۔ موجودہ منتخب حکومت نصف سے زیادہ مدت گزار چکی ہے، اس دوران دہشت گردی کے خلاف اقدامات میں واضح کامیابیاں ملی ہیں۔ معیشت کے اشاریے اطمینان بخش نہیں لیکن جون 2013 کے مقابلے میں صورتحال بہتر ہے۔ اہم معاشی منصوبوں پر زور شور سے کام جاری ہے۔ تاہم آئینی بالادستی کے سوالات کھٹک رہے ہیں، سیاسی طالع آزما تواتر کے ساتھ آئین کی فصیل پر چاند ماری کر رہے ہیں۔ 2014 میں چھے ماہ تک حکومت کو مفلوج رکھا گیا۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کہتے ہیں کہ اگست 2014 کا دھرنا اسکرپٹ کا نتیجہ تھا۔ صاحب دھرنا نہ ہوا شیکسپیئر کا ڈرامہ ہوگیا۔ کھیل نے دھوم مچا دی اور لکھنے والے کو مد نظر ہوا پردہ۔ 2016 کے موسم گرما میں ایک بار پھر عدم استحکام کی بشارت دی جا رہی ہے۔ اجل کے ہاتھ کوئی آرہا ہے پروانہ۔۔۔

معیشت میں بہتری ایک وسیع تر معاشرتی اور سیاسی نمونے کا تقاضا کرتی ہے۔ اسحاق ڈار صاحب دال کی بجائے مرغی کھانے کا مشورہ دیتے ہیں تو ہماری حس مزاح پھڑک اٹھتی ہے۔ اسحاق ڈار نے کچھ روز پہلے میثاق معیشت کی تجویز دی تھی، اس پر کوئی کان نہیں دھرتا۔ اس لئے کہ ہم معیشت سے انحراف اور معاشرت میں کج روی سے ملنے والے ناجائز فائدے سے ہاٹھ اٹھانے پر تیار نہیں ہیں۔ معاشرتی اقدار میں شہریوں کی مساوات اور قانون کی بالادستی قائم کئے بغیر ایسی معیشت استوار نہیں کی جا سکتی جو منڈی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ سال رواں میں عورتوں کے حقوق کا مسئلہ ہماری معاشرت میں اہم ترین سوال کے طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ قصہ عورتوں کے تحفظ کے قانون سے چلا تھا، اس میں اسلامی نظریاتی کونسل چلی آئی اور پھر معاملہ ٹیلی ویژن سکرین تک جا پہنچا۔ اس دوران معصوم بچیوں کے ساتھ درندگی کے واقعات پے در پے ہو رہے ہیں اور ہماری سیاسی قیادت کی صورت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے جلسوں میں بد تہذیبی ہوئی تو عمران خان کا موقف استوار نہیں تھا۔ گزشتہ برس ایک محترم خاتون سیاسی رہنما کے بارے میں الطاف حسین کے جملوں میں شائستگی کا عنصر مفقود تھا۔ خواجہ آصف نے جو کہا اس کی ان سے توقع نہیں تھی۔ مولانا فضل الرحمٰن کی حس مزاح صنفی مساوات کی بنیادی قدروں سے روگردانی کرتے ہوئے آگا پیچھا نہیں دیکھتی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی قیادت اگر عورتوں کے معاملوں میں حساس ہوتی تو ہر دوسرے جرگے میں پیپلز پارٹی کے منتخب رہنما رونق نہ بخشتے۔ ہماری سیاست کو معاشرت کا سبق پڑھنا چاہئے۔ یہ کسی سیاسی رہنما یا جماعت پر تنقید کا معاملہ نہیں، ہمارے سیاسی مکالمے کو معاشرتی شعور سے بہرہ مند کرنا چاہئے۔ پاکستان کی عورتوں کی مساوی سیاسی، قانونی اور معاشی حیثیت تسلیم کئے بغیر قومی تشخص کو ا سکیورٹی اسٹیٹ کی بجائے معیشت کو محور سمجھنے والے دھڑے پر نہیں ڈالا جا سکتا۔

پاکستان ناگزیر طور پر آئین کی بالادستی اور جمہوری طرز حکومت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہم نے سرد جنگ کے بعد بہت سا وقت ضائع کیا ہے اور ہمارے سیاسی بندوبست میں بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے لیکن ہم نے اس شاہراہ کے ابتدائی خد وخال دیکھ لئے ہیں جو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے سیاسی اقتدار کی طرف جاتی ہے۔ اس ارتقا میں میثاق جمہوریت اور اٹھارویں آئینی ترمیم کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ ہماری صحافت خبر بنانے کے جنون میں ہنگامی اور اہم کا فرق فراموش کر رہی ہے۔ ہمارے سیاسی منظر پر طالع آزما موجود ہیں تو ہماری صحافت میں بھی برقی لہروں پر مفاد کی پتوار چلانے والے قزاق پائے جاتے ہیں۔ صحافت کو پیشہ ورانہ ضابطوں کے اندر رکھنے کے لئے ریاستی اداروں کی کوششوں پر تنقید کی گنجائش موجود ہیں لیکن بہتری کے امکانات بھی نظر آرہے ہیں۔ وہ وقت زیادہ دور نہیں کہ جب ہمارا مورخ شرح صدر کے ساتھ لکھے گا کہ 1973 کے آئین نے پاکستان کے وفاق کو قابل عمل بنیاد فراہم کی اور ہماری سیاسی قیادت نے 2006 میں میثاق جمہوریت کے ذریعے آئین کے ارد گرد وسیع تر قومی اتفاق رائے کی فصیل تعمیر کی۔ اس دوران ہم ایسے ہنگامی ادوار سے گزرے جن میں ہماری معیشت، معاشرت اور تمدن کے خد و خال بگڑ کر رہ گئے۔ ہمیں ابھرتے ہوئے امکانات سے فائدہ اٹھانا ہے تو معیشت کا ایک میثاق بھی ہونا چاہئے۔ معیشت کی اپنی ایک منطق ہوتی ہے۔ اسٹاک اکسچینج کے بورڈ پر لکھے ہندسے، کلی داخلی پیداوار کا حجم، محصولات کے اعداد و شمار، بجٹ کی ترجیحات، افراط زر کی شرح اور بیرونی سرمایہ کاری کے رجحانات معیشت کی شاہراہ پر ٹریفک کے نشانات ہیں۔ معیشت کسی کرشمہ ساز رہنما کی عبقری ذہانت کے تابع نہیں، اسے قوم کی اجتماعی فراست درکار ہوتی ہے۔ قوم کی دانش کا ایک اظہار پارلیمنٹ میں ہوتا ہے اور پارلیمنٹ کا مکالمہ ایک ان کہے سمجھوتے کے ذریعے صحافت کے وسیع تر مکالمے سے جڑا ہوا ہے۔ پارلیمنٹ کو کسی سیاسی رہنما کی نجی خواہشات کا اسیر نہیں بنایا جاسکتا تو ذرائع ابلاغ کو بھی صحافی کے ذاتی مفادات کا یرغمالی نہیں بنایا جا سکتا۔ چناچہ ایک میثاق صحافت بھی درکار ہے۔ اب جنرل نصیر اللہ بابر، گجرات کے بنیامین رضوی، ڈاکٹر اسرار احمد اور ڈاکٹر شیر افگن دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ ہم نے متبادل رائے عامہ کو گالی دینے کی ثقافت ایک خاص نظریاتی تناظر میں دریافت کی تھی۔ اب وقت ہے کہ سیاسی رہنما، اہل دانش اور ملک کی اقلیتوں اور عورتوں کے لئے آواز اٹھانے والے مل بیٹھیں اور ایک میثاق معاشرت طے کیا جائے۔ تاریخ کا پانسہ پھینکا جا چکا ہے، پیوستہ مفادات کی ناک کا بانسہ پھر چکا ہے، ایک نیا پاکستان جنم لے رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments